|

وقتِ اشاعت :   February 4 – 2015

لندن ( پ ر) بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچ قومی تحریک بلوچ قوم کی آزادی اور اس کی روشن مستقبل کی تحریک ہے ۔یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک پاکستانی اور ایرانی ریاستیں بلوچ سرزمین سے غیرمشروط انخلا ء نہیں کرتے اور آزادوخود مختار بلوچستان کی تشکیل نہیں ہوتی۔ انھوں نے مزید کہا کہ محمود خان اچکزئی کے لندن میں مجھ سے میرے والد مرحوم سردار خیربخش مری کی تعزیت پر آنے کے حوالے سے بیان کے تناظر میں بلوچ قوم میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خالصتاًایک روایتی رسمی تعزیت کو منفی رنگ دے کر چند لوگ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر رہے ہیں یہ لوگ نیشنل پارٹی کو کچھ عرصہ قبل چھوڑ کر تحریک آزادی میں شامل تو ہو چکے ہیں مگر شایدنیشنل پارٹی کی سوچ کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں بلوچ پشتون قومی روایات کے مطابق محمود خان اچکزئی لندن ہمارے پاس تعزیت کے لیے آئیں جو کہ تقریبا پندر ہ سے بیس منٹ بیٹھے اور تعزیت کر کے چلے گئے۔ بلوچ روایات سے آگہی رکھنے والے لوگ اس بات کا علم رکھتے ہیں کہ بلوچ رسم و رواج اور اقدار کے تحت تعزیت کیلئے اگر آپ کا دشمن بھی آئے تب بھی فاتحہ لینے سے انکار نہیں کیا جاتا ہے ، جہاں تک پشتوں قوم کا تعلق ہے تو وہ ہمارے تاریخی ہمسایہ ہیں جن کے ساتھ آزاد بلوچ ریاست اور قوم کے ہمیشہ سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ حیربیار مری نے کہا کہ تعزیتی ملاقات کے دوران میں نے محمود خان سے کہا کہ بلوچ قوم اور پشتون قوم کے تاریخی تعلقات اور رشتے ہیں پشتون قوم کو چاہیے کہ وہ بلوچ قومی آزادی کی حمایت کر یں ہمارے پشتونوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور آزادی کے بعد پشتون چاہیں تو اپنی آزاد پشتونستان بنائیں یا افغانستان کے ساتھ شامل ہوجائیں یا اگر وہ آزاد بلوچستان میں بلوچ قوم کے ساتھ رہنا چاہیں تو بلوچ اور پشتون قوم کا ایک یونین ہوسکتا ہے جہاں دونوں اقوام برابری سے ر ہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ اور پشتون د و الگ ریاست رکھتے تھے اور پھرانگریز کے دور میں انکے کچھ علاقے ایک ساتھ شامل کیے گئے جو دونوں اقوام کی خواہشات کے برعکس تھا مگر آج بھی دونوں اپنی الگ سرزمین اور علاقوں کے مالک ہیں ، ان کی الگ الگ ریاستیں تھیں لیکن برطانیہ نے بلوچ اور پشتون کی سرزمین دونوں اقوام کی خو اہشات کے برعکس تقسیم کیا اور اسے ایک ساتھ ملایا ۔ ڈیورنڈ لائن کے تحت افغانستان کے کچھ پشتون علاقے بلوچستان میں شامل کیے گئے اور کچھ بلوچ علاقوں کو افغانستان میں شامل کیا گیا۔ پشتونوں کی تاریخ ،سیاست،علاقہ سب بلوچوں سے الگ ہیں اور وہ اپنے حوالے سے اپنی قومی سیاست کرتے ہیں اسی لیے وہ ہمار ے پا بند نہیں ہیں اور ہم انھیں مجبور بھی نہیں کر سکتے کہ پاکستانی سیاست نہ کریں لیکن یہ ہمیشہ سے ہماری خواہش رہی ہے کہ پشتون قوم پاکستانی سیاست کے بجائے خان عبدالغفار خان کے سوچ کی پیروی کریں اور پشتون سرزمین کی آزادی کے لیے جدوجہد کریں۔ حیربیار مری نے کہا کہ ہم نے پشتون قوم کے حوالے سے محمود خان کو یہ بھی کہا کہ آپ کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے آپ اپنے حوالے اپنی سیاست کر یں اور پاکستان کی کوشش ہے کہ بلوچ و پشتون آپس میں دست و گریبان ہوں لیکن کیا بلوچ پشتوں کی کشمکش سے دونوں قوموں کو فائدہ ہے ؟ یا کہ پاکستان کو اسکا فائدہ ہوگا اور چند بلوچ و پشتون دونوں قوموں کو آپس میں دست و گریبان کر یں یہ دونوں اقوام کے مفاد کے بجائے قابض کے فائدہ میں جائے گا پھر کیونکر بلوچ اور پشتون لڑ کر اپنے قومی مفادات کو نقصان پہنچا کر پاکستانی ریاست کو فائدہ دیں ؟ ۔ حیربیار مری نے اپنے بیان میں کہا کہ پہلے بھی یونیورسٹیوں میں کچھ افراد نے پاکستان کی ا یماء پر بلوچ پشتون نوجوانوں کو سازش کے تحت مروایا اور اسے بلوچ و پشتون لڑائی کا نام دیا گیا۔دونوں قومو ں کے درمیان ماضی میں بھی نفرت کی فضاء قائم کی گئی ، صرف ایک زرعی کالج کی تعمیر کے مسئلے پر بلوچ و پشتون آپس میں جھگڑتے رہے لیکن اگر بلوچستان آزاد ہوتا تو ہم اپنے وسائل سے اس طرح کے سینکڑوں کالج بلوچ اور پشتون علاقوں میں بناسکتے تھے ۔ دونوں اقوام ماضی میں پنجابی اور پاکستان کی سازش کو سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر مارتے رہے اور اپنی طاقت و قوت ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہے ۔ صرف پاکستان کے جعلی اسمبلی کی خاطر چند پشتون اور بلوچوں نے اپنی سیٹ کو حاصل کرنے کے لیے پنجابی ریاست کی خواہشات کے تحت اسے بلوچ پشتون مفاد کا نام دیکر یہ سب کچھ کرواتے رہے ۔ہم نہیں چاہتے کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف ہوکر اپنی طاقت ایک دوسرے کے خلاف لگائیں کیونکہ یہ بلوچ اور پشتون قومی مفاد میں ہرگز نہیں ہوگا ۔ جہاں تک بلوچ اور پشتون کے درمیان علاقوں کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے مسئلے ہیں تو دنیا میں بہت سے قوموں کے درمیان اس طرح کے مسئلے رہے ہیں لیکن ان کو ہمیشہ گفت شنید سے حل کیاجاتا رہاہے۔ بلوچ قوم کی آزاد حیثیت بحال ہونے کے بعد دونوں اقوام مل بیٹھ کر ان مسائل کا بہتر حل ڈھونڈ سکیں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی کے بعد یہ پشتون قوم پر منحصر ہوگا کہ مستقبل میں وہ بلوچ قوم کے ساتھ رہیں یا الگ رہیں لہٰذا پشتون وبلوچ دونوں کے لوگ بلوچ قومی جہد کے آگے پنجابی کا آلہ کار بن کر استعمال نہ ہوں ۔ حیربیار مر ی نے کہا کہ اس تعزیت کے حوالے سے مجھ سے سوالات کیے گئے اور اگر بلوچ قوم میں کسی چیز کے حوالے سے دانستہ طور پربدگمانیاں پیدا کی جاتی ہیں تو یہ ہم پر فرض ہے کہ قوم کو سچائی سے آگاہ کریں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ پہلے بلوچ جدوجہدکا ستون بہت مضبوط تھا لیکن اب بلوچ قومی تحریک کی بنیادوں کو گروہ پرستی، الگ الگ دائرے بنانے کے رجحان اور مثبت و تعمیری بحث کو درآمد کردہ پاکستانی اقدار کے ذریعے کمزور کیا جارہا ہے ۔ جہاں سنجیدہ تحریکی معاملات کو ایک مذاق سمجھا جارہا ہے سنجیدہ سوچ کو غیرسنجیدہ لوگوں کے ذر یعے کنفیوز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سوال اور جواب کی گنجائش قومی تحریک میں ہے لیکن پاکستانی سیاسی طرز کے بجائے بلوچی رسم اور سیاسی اخلاقیات کے دائرے میں سوال و جواب ہونا چاہیے تاکہ اس سے قومی جد وجہد کی کمزوری اور کوتائیوں کو دور کیا جاسکے انھوں نے کہا آ ج یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اس تعزیت کے دوران میں نے کوئی ڈیل کی ہے، حالانکہ فوج کے سربراہ مشرف جس کے پاس پاکستان کے سیاسی اور فوجی اختیارات تھے اس نے مجھ سے ملنے کی بہت کوشش کی پیغام بھیجے لیکن میں نے ان سے سمجھوتہ نہیں کیا تومحمود خان خود ہماری طرح ایک محکوم قوم کا فرد ہے اس کے ساتھ کیا ڈیل ہو سکتی ہے ۔قومی آزادی پر مذاکرات کوئی فرد یا ایک جماعت نہیں کر سکتا ہے بلکہ تمام آزادی پسند قوتیں قوم کو اعتماد میں لے کر ہی فیصلہ کرسکیں گے۔