اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے بعض اہلکار گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ افغان مہاجرین کو اپنے ملک واپس نہ بھیجا جائے۔ ان کو یہیں رہنے دیا جائے۔ وجہ یہ بتاتے ہیں کہ وہ گزشتہ 30سالوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ افغانستان میں ان کا کچھ بھی نہیں بچا۔ ان کے لئے وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ جو بچے یہاں پیدا ہوئے ان کی عمر بھی 30سال ہوگئی ہے اور وہ پیدائش کے لحاظ سے پاکستانی ہیں۔ اس لئے حکومت پاکستان اپنا رویہ تبدیل کرے اور ان افغان مہاجرین کو مستقل بنیادوں پر یہاں رہنے دیا جائے اور ان کو پاکستانی شہریت دی جائے۔ اقوام متحدہ کے اہلکاروں اور بعض یورپی سفارت کاروں کی مہم کسی حد تک کامیاب رہی اور بعض افسران، جن میں بعض ریٹائرڈ ہوگئے ہیں اس مطالبے کی حمایت کررہے ہیں کہ افغان مہاجرین کو ملک سے نہ نکالا جائے، ان کو پاکستان میں رہنے دیا جائے بلکہ ان کو پاکستانی شہریت دی جائے۔ مگر ابھی تک حکومت کے رویے اور پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پاکستان کی حکومت اس موقف پر قائم ہے کہ اس سال کے آخر تک تمام افغان مہاجرین اور غیر ملکی افغان تارکین وطن واپس اپنے ملک چلے جائیں۔ اگر عزت و احترام کے ساتھ واپس جائیں گے تو یہ بہتر ہوگا۔ لیکن یہ ایک مسلح حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام نے افغان مہاجرین اور تارکین وطن کو اپنے سرزمین پر دل سے قبول نہیں کیا۔ نہ ہی افغانوں نے مقامی لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کی بلکہ وہ ملک اور عوام الناس پر بہت بڑا بوجھ ثابت ہوئے ۔دہشت گردی، اسلحہ کی اسمگلنگ اور خرید و فروخت، منشیات فروشی، اغواء برائے تاوان، شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹنے، چوری، ڈاکہ اور رہزنی کے وارداتوں میں یہ ملوث پائے گئے۔ اکثر افغانوں نے دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کو ضروری سہولیات فراہم کیں تاکہ وہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کریں۔ پاکستان کو کمزور کریں۔ یہی سب کام افغانوں نے ایران میں بھی کئے۔ ایران میں افغان مہاجروں کی تعداد 10لاکھ سے زیادہ ہے۔ وہاں کوئی نہیں کہتا کہ ان کو ایرانی شہریت دی جائے یا ان کو واپس اپنے وطن نہ بھیجا جائے۔ ایران بھی اس سال کے آخر تک تمام افغان مہاجرین کو واپس اپنے وطن روانہ کرنے کا ارادہ کررہا ہے بلکہ اس کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔ ایران نے افغان مہاجروں کے مکمل دستاویزات بنائے ہیں جس سے آسانی کے ساتھ ان کو واپس افغان بھیجا جاسکے گا مگر پاکستان میں روزانہ ہزاروں کی تعداد نئے افغانی داخل ہورہے ہیں۔ یہ سب معاشی مہاجر ہیں۔ وہ معاشی وجوہات کی بنا پر پاکستان آرہے ہیں۔ بعض اپنا کالا دھن بھی ساتھ لارہے ہیں۔ انہوں نے کوئٹہ، لسبیلہ، گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں زمینیں خریدیں ہیں۔ اس لئے حکومت سے عوام کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ افغان مہاجرین کی تمام جائیداد ضبط کی جائے۔ ان کو معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے نہ دیا جائے۔ ان کی کاروباری سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے۔ البتہ جو حقیقی تاجر ہیں حکومت ان کو جائز طریقے سے ویزا دے اور وہ اپنا مسکن قانونی طور پر یہاں بناسکتے ہیں جب تک وہ کاروبار کرتے رہیں گے۔ البتہ عوام الناس کے دل میں افغان غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے۔ ان کو بلوچ سماج میں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ پاکستان اور اس کے سماج کے تباہی کے مظہر ہیں۔ اس لئے پاکستان میں اقوام متحدہ کے چاپلوس حضرات کے بغیر ان کو کوئی پسند نہیں کرتا۔ اس لئے وہ عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھروں کو رضاکارانہ بنیاد پر چلے جائیں تو بہتر ہے ورنہ حکومت پاکستان کو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنی پڑے گی جس سے بدمزگی پیدا ہوسکتی ہے۔