|

وقتِ اشاعت :   February 10 – 2015

کوئٹہ: وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 1993دن ہو گئے۔بلوچ شہدا و اسیران کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کے لئے مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے کیمپ کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا ریاستی ظلم و جبر سے بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ خاندان اپنے علاقوں سے نکل مکانی کرکے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں، مشکے آواران ، کولواہ، تجابان، و شاپک سمیت بلوچستاں کے طول و عرض میں بسے بلوچ عوام ریاستی جبر کی وجہ سے احساس عدم تحفظ و خواف کا شکار ہیں، فورسز بلوچ عوام کو خوفزدہ کرنے کے لئے اپنی چوکیاں آبادیوں کے اندر تعمیر کرتے ہیں جس سے وہاں کے لوگ شدید ذہنی اضطراب کا شکار ہیں۔ نیشنل پارٹی کی حکومت کے بیانات کے برعکس بلوچستان بھر سے نوجوانوں کا اغواء تسلسل کے ساتھ جاری ہے، اظہار ہمدردی کے لئے آنے والوں سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین ماما قدیر بلوچ و سمی بلوچ نے کہا کہ ریاستی فورسز بلوچستان کو مفتوحہ علاقہ سمجھ کر اپنی مرضی کے مطابق ظلم و جبر کرہے ہیں، لوگوں کو اٖغواء کرنا، شہید کرنا، گھروں کو لوٹنا،روز کا معمول بن چکا ہے، فورسز کے اہلکار بغیر کسی رکاوٹ کے آبادیوں پر حملہ کرکے لوٹ مار کرتے ہیں،پاکستانی فوج نے جس طرح بنگلہ دیشی مذاحمت کاروں سے مزاحمت کے بجائے عام آبادیوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا، اب وہی وحشت کا مظاہرہ بلوچستان میں کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو کوئی بھی قوم بغیر قربانی کے نہ آزاد ہوا ہے اور نہ ہی پرامن زندگی اپنے لئے حاصل کر سکا ہے۔ بلوچ اپنے پر امن و آزاد زندگی کے لئے آج اپنا سب کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں، جس ریاستی فورسز تمام تر ظلم و زیادتیوں اور طاقت کے وحشیانہ استعمال سے اسے ختم نہیں کر سکتے۔