متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے سانحہ بلدیہ کی رپورٹ آنے پر پورے ملک کو سر پر اٹھالیا تھا اور ہر خاص و عام کو دھمکی دی تھی کہ سانحہ بلدیہ کے بہانے متحدہ کو بدنام نہ کیا جائے۔ دوسری جانب اخباری اطلاعات کے مطابق الطاف حسین نے اپنے بعض بیانات ندامت کے ساتھ واپس لے لئے اور شیریں مزاری سے اپنے ریمارکس پر معافی مانگ لی۔ خیال ہے کہ مقتدر ہ نے متحدہ کو انتباہ کیاکہ اگر ملک کے اندر کشیدگی میں اضافہ ہوا تو اس کی ذمہ دار متحدہ ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں مقتدرہ متحدہ کے خلاف کارروائی کرے گی۔ اس انتباہ کے بعد الطاف حسین نے اپنی روش تبدیل کردی اور معافی بھی مانگ لی۔ ادھر تحریک انصاف نے اپنے مظاہرے بھی ملتوی کردیئے، وفاقی حکومت اور بعض وفاقی وزراء جو تحریک انصاف کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور تحریک انصاف کو اس بات پر قائل کردیا ہے کہ وہ نرم رویہ اختیار کریں اور سیاسی ماحول میں زیادہ تلخی پیدا نہ ہونے دیں۔ اس لئے تحریک انصاف کے پروگرام کے مطابق مظاہرے اور عمران خان کا دورہ کراچی التواء کا شکار ہوگیا ہے وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی یہ دانستہ کوشش ہے کہ سیاست میں مزید تلخی نہ لائی جائے۔ دوسری طرف منگل کی ریلی کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ اس میں کم لوگوں نے شرکت کی۔ اتنے کم لوگ تھے کہ متحدہ کی لیڈر شپ بھی پریشان ہوگئی حالانکہ متحدہ نے بعض دفاتر بند کرائے اور بعض کالجوں میں وقت سے پہلے چھٹی کرائی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوں۔ متحدہ کی پسپائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں ان کے اپیل کی زیادہ پذیرائی نہیں ہوئی۔ متحدہ کے رہنماء اس بات پر خوفزدہ ہوگئے کہ کراچی ان کے ہاتھ سے جاتا نظر آرہا ہے۔ اور ان کا نعم البدل دوبارہ جماعت اسلامی ہے جس نے حالیہ دنوں میں بڑے بڑے جلسے کئے جن کو جماعت اسلامی والے ’’ملین مارچ‘‘ کا نام دیتے رہے۔ گمان ہے کہ آئندہ چند دنوں تک تحریک انصاف اور متحدہ کے درمیان کشیدگی کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا اور حکومت کو یہ موقع بھی مل جائے گا کہ وہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کرے اور دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں سے عبرت ناک سزائیں دلائے۔ اس عمل میں خلل ڈالنا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا کیونکہ دہشت گرد کسی بھی پارٹی یا گروہ کو ردعمل کے طور پر نہیں بخشیں گے اور دہشت گردی زیادہ شدت کے ساتھ جاری رہے گی۔ اگر ملک میں امن اور سکون رہا تو پاکستانی ریاست اتنی طاقت ور ہے کہ وہ دہشت گردوں کا ملک کے ہر حصے سے صفایا کرے گی۔ اب یہ معاملہ متحدہ پر ہے کہ اگر وہ سیاسی فضاء کو مکدر بنانے کی کوشش کرے گی اور حکومتوں، خصوصاً وفاقی اور سندھ حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرے گی تو مجبوراً بلدیہ کی دہشت گردی اور 12مئی کے قتل عام کے دونوں مقدمات فوجی عدالتوں میں پیش کی جائیں گی جس میں صرف اور صرف متحدہ اور اس کے رہنما ء اور کارکن ملوث ہیں۔ ان کے ساتھ اچھا حشر ہونے کا امکان نہیں ہے۔ لہذا متحدہ اپنی عافیت اس میں سمجھے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے اور اس کے لئے موجودہ صورت میں مشکلات پیدا نہ کی جائیں تاکہ پرامن طریقہ سے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد ہو اور دہشت گردوں اور ان کو پناہ دینے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ پاکستان بلکہ پورے خطے میں دیرپا امن قائم ہو۔ یہ خطے کے مفاد میں ہوگا کہ پاکستان میں امن برقرار رکھا جائے۔
متحدہ کی پسپائی
وقتِ اشاعت : February 11 – 2015