|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2015

اسلام آباد: پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کی سربراہی میں میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پی پی پی کے دورِ حکومت میں شروع کیے گئے کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے کئی ارب روپے کے منصوبوں پر اعتراضات سے متعلق آڈٹ کی خصوصی رپورٹوں کے متعلق ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ ان خصوصی رپورٹوں کی جانچ پڑتال منگل کے روز منعقدہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ تاہم اس کمیٹی نے اس پر بحث کو ملتوی کرتے ہوئے دیگر ’غیراہم معاملات‘ کا جائزہ لیا۔ سال 2010ء اور 2011ء کی یہ آڈٹ رپورٹیں زیرو پوائنٹ انٹرچینج (زیڈ پی آئی)، فیصل ایونیو انٹرچینج اور چنگی سے متعلق سہولیات کے بارے میں تھیں، جو گزشتہ سال مئی کے دوران پی اے سی کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ فی الحال پی اے سی 2012ء اور 2013ء میں سی ڈی اے کے اخراجات پر آڈٹ آفس کی رپورٹ کا جائزہ لے رہی ہے، جو زیادہ تر معمولی مالیاتی بے ضابطگیوں سے متعلق ہیں۔ یاد رہے کہ 2010-11ء کے دوران سی ڈی اے کے معاملات کی نگرانی مبینہ طور پر ایک مقامی تاجر کر رہے تھے، جو پیپلزپارٹی کی قیادت سے قریب تھے۔ آڈٹ سے متعلق ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ’’ان ’بے قائدگیوں‘ کا ارتکاب پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران کیا گیا تھا اور کچھ بااثر لوگ ان کے پیچھے تھے، پی اے سی ان کی جانچ سے متعلق ہچکچکاہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے۔‘‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مئی 2014ء کے بعد سے یہ رپورٹیں پی اے سی کے سامنے سات مرتبہ پیش کی گئی تھیں، لیکن اس کمیٹی نے اس کی جانچ کو مؤخر کردیا تھا۔ سی ڈی اے کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اگرچہ پیپلزپارٹی کی حکومت کےد وران اس شہری ادارے کے معاملات اس بزنس مین کے زیراہتمام چلائے جارہے تھے، لیکن ان کے خلاف ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر سی ڈی اے کے اہلکاروں کے ذریعے کوئی غلط کام کیا ہو۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پی اے سی نے پہلے ہی سی ڈی اے کے ڈائریکٹر سے تین کروڑ چالیس لاکھ بازیاب کرنے کے لیے حکام کو ہدایت کرکے ایک مثال قائم کی تھی، جو مبینہ طور پر ’پارکنگ سائٹ‘ کو ایک نجی ٹھیکے دار کو دینے میں ملؤث تھے۔ چنانچہ بزنس مین کی مجرمانہ اعانت کرنے والے اہلکاروں سے اربوں روپے کی بازیابی کے لیے بھی کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’لیکن سی ڈی اے کے عہدے دار اپنی کھال بچانے کے لیے ان بے قاعدگیوں کے پسِ پردہ ’اہم شخصیت‘ کو بے نقاب کرسکتے ہیں۔‘‘ پی اے سی کے ایک رکن شیخ رشید احمد نے کہا کہ یہ پارلیمانی فورم غیرفعال بن گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’وہاں صرف وقت برباد کیا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ تمام معاملات قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھیجے جانے چاہیے تھے لیکن جب سے اعلیٰ سطح پر سازباز کرلی گئی ہے، کسی کو اس طرح کی کارروائیوں سے مثبت نتائج کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ متعدد کوششوں کے باوجود پی اے سی کے چیئرمین خورشید شاہ اور پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ پی اے سی کے ایک اور رکن میاں عبدالمنان نے کہا ’’آئندہ اجلاسوں میں ان رپورٹوں کو اُٹھایا جاسکتا ہے۔‘‘ اس تاخیر کی وجہ بیان کرتے ہوئے میاں منان نے کہا کہ گزشتہ سال آڈیٹر جنرل آف پاکستان اختر بلند رانا کے ’بائیکاٹ‘ کی وجہ سے پی اے سی چند مہینے غیر فعال رہی تھی، اور ان رپورٹوں کی جانچ پڑتال نہیں کی جاسکی تھی۔ یاد رہے کہ آڈیٹر جنرل کے اس اعلان کے بعد کہ ان کے ادارے کا کوئی عہدیدار اس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوگا، جب تک کہ خورشید شاہ کی جگہ کسی ایسے شخص کو چیئرمین مقرر نہیں کیا جاتا جو پیپلزپارٹی کا رکن نہ ہو، چنانچہ اگست سے اکتوبر پی اے سی کے اجلاس منعقد نہیں ہوسکے تھے۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کا نکتہ نظر تھا کہ جب پی اے سی پیپلزپارٹی کے دورِاقتدار سے متعلق آڈٹ رپورٹوں کی جانچ کرے تو اس وقت خورشید شاہ کو ان اجلاسوں کی صدارت نہیں کرنی چاہیے۔ دوسری جانب پی اے سی نے گیارہ اگست کو آڈیٹر جنرل کے خلاف سپریم جیوڈیشل کونسل میں اپنے عہدے کا مبینہ استعمال کرتے ہوئے اپنی تنخواہ اور دیگر اضافی سہولیات حاصل کرنے پر ایک ریفرنس بھیجا تھا، جو تاحال عدالتی کارروائی کا منتظر ہے۔ ایک خصوصی رپورٹ میں آڈیٹر جنرل نے نشاندہی کی تھی کہ اس شہری ادارے نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے زیرو پوائنٹ انٹرچینج پر کام کے لیے 2.3 ارب روپے جاری کیے تھے، اس ٹھیکے دار کو ناجائز طور پر تین کروڑ روپے کی رقم ادا کی گئی، 2.7 ارب روپے کے معاہدے کو 4.1 ارب روپے تک بڑھانے کے لیے ایک بے ضابطہ نظرثانی کی گئی، ڈیزائن کے مطابق کام نہ کیے جانے کے علاوہ کام کے اضافے کی وجہ سے نو کروڑ دس لاکھ کی اضافی ادائیگی کی گئی، جس کے نتیجے میں آٹھ کروڑ چالیس لاکھ روپے کا نقصان ہوا اور مختلف مدوں میں دس کروڑ روپے کی اضافی ادائیگی کرنی پڑی۔ آڈٹ کے حکام نے نشاندہی کی ہے کہ فیصل ایونیو انٹرچینج میں حکومت کو اضافی اخراجات کی وجہ سے 1.2 ارب کا نقصان ہوا ہے، ڈیزائن کی تبدیلی کی لاگت 1.1 ارب روپے ہے، اور دیگر بے قاعدگیوں کی لاگت پچاس کروڑ روپے ہے۔ چنگی کی سہولت سے متعلق رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس شہری ادارے کو دس کروڑ بیس لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، تعمیر، آپریٹ اور ٹرانسفر کی بنیادوں پر فیس جمع کرنے کے نتیجے میں بیس کروڑ ساٹھ لاکھ روپےکا نقصان ہوا۔ بیالیس کروڑ چالیس لاکھ روپے کا سامان سی ڈی اے کے حوالے نہیں کیا گیا۔ آڈٹ آفس نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ سی ڈی اے ٹھیکے داروں سے چار کروڑ ستّر لاکھ کے پرفارمنس بانڈ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔