|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2015

کوئٹہ(پ ر) ہلال احمرمعاشرے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا وہ حصّہ ہیں جو کہ حادثے یا آفت کی صورت میں ذندگیاں بچاتے ہیں اور حالت امن میں ایسی مفید ٹرینگز فراہم کرتے ہیں جو کہ زندگیاں بچانے کے لیے بہت مفید ثابت ہوتی ہیں۔ ہلا ل احمر کی جانب سے بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکاروں کے لیے ابتدائی طبی امداد کی تین روزہ تربیت کے اختتام پر ایس پی ہیڈ کواٹر آغا رمضان علی کا کہنا تھا کہ ابتدائی طبی امدادکی تربیت نہ صرف پولیس اہلکاروں بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ کیونکہ کسی ایسے حادثے کی صورت میں باقاعدہ طبی امداد تک رسائی ملنے تک اپنی اور ذخمی ہونے والے کی ذندگی کو ابتدائی طبی امداد کے طریقہ کار سے بچایا جا سکتا ہے۔ ہم نے ہلال احمر سے درخواست کی کہ ہمارے جوانوں کو ابتدائی طبی امدا د کی تربیت دی جائے جو کہ اس سے لا علم ہیں۔ تا کہ کسی حادثے کی صورت میں باقاعدہ طبی امداد پہنچنے تک ذخمی ہونے والوں کی ذندگیوں کو بچایا جا سکے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے تمام پولیس اہلکاروں کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔اس کی افادیت کے پیش نظر تربیت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہلال احمر کی سینیئر فرسٹ ایڈ ٹرینر بشرہ ندیم کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کوئی بھی انسانی کبھی بھی کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے اور پولیس کی ذمہ داروں کی نوعیت ایسی ہے کہ انہیں حادثات کا ذیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس تربیت کا مقصد ہے کہ نا صرف وہ اپنی بلکہ دوسرے ساتھیوں اور لوگوں کی زندگیوں کو بھی بچا سکیں۔ اس تربیت میں خون بہنا، فریکچراور سی پی آر(Cardio Pulmonary Resuscitation) کی خصوصی تربیت دی گئی اور شرکا ء سے عملی مشقیں بھی کروائیں گئیں کہ اگر کسی کی سانس بند ہو گئی ہے یا دل کا دورہ پڑا ہے تو اس کی مدد کیسے کی جائے ۔سب انسپکٹر کرائم برانچ فرید علی،سب انسپکٹر چاغی شبیر احمد،اے ایس آئی کرائم برانچ کوئٹہ عبدالغفور خان اورہیڈ کانسٹیبل سبی غلام محمدنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ابتدائی طبی امداد اور ہلال احمر کے متعلق ذیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن اس تربیت کے بعد ابتدائی طبی امداداور ہلال احمر کی تاریخ اور کام کی نوعیت کے حوالے سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے ۔ملک میں امن و امان کی جو صورت حال ہے اس میں پولیس اہلکار سب سے ذیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے پولیس کے نوجوانوں کے لیے اس تربیت کو لازمی قرار دینا چاہیے۔ اس تربیت میں ہم نے سیکھا کہ کسی شخص کو ڈاکٹر یا ہسپتال تک پہنچانے سے پہلے اس کے مرض کو جان کو اسے اتنی مدد فراہم کرلیں کہ اسے مزید نقصان نہ ہو اور اس کی جان بھی بچ جائے اور ایسے طریقے کار بھی پتا چلے جو کہ معاشرے میں عام ہیں لیکن ان سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔یہ صرف پیشہ ورانہ ہی نہیں بلکہ روزمرّہ زندگی میں نہ صرف مفید بلکہ ناگزیر ہے۔ عملی امتحان کے بعد شرکاء میں اسناد تقسیم کی گئیں۔