پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے افغانستان میں تشدد پر مبنی ‘پراکسی جنگ’ کی پشت پناہی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی روزنامہ گارجین سے ایک انٹرویو میں مشرف نے تسلیم کیا کہ ان کے دور میں پاکستان نے سابق افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کی کیونکہ کرزئی نے ‘پاکستان کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے میں انڈیا کی مدد’ کی تھی۔
مشرف کہتے ہیں: اب نئے صدر اشرف غنی سے ‘مکمل تعاون’ کاوقت آ چکا ہے کیونکہ وہ ‘خطے میں امن کی آخری امید ہیں’۔
‘جی ہاں، صدر کرزئی یقیناً پاکستان کو نقصان پہنچا رہے تھے لہذا ہم ان کے مفادات کے خلاف سرگرم رہے۔ ظاہر ہے، ہمیں بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرنا تھا’۔
مشرف کا کہنا تھا کہ اب صدر غنی آ چکے ہیں اور وہ افغانستان میں توازن قائم کرنے میں کوشاں ہیں۔’ہمیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہیئے’۔
غنی نے اقتدار میں آنے کے کچھ مہینوں میں پاکستان کو راغب کرنے کی کوشش کی، جس کا مشرف اپنے دور اقتدار کے اہم سالوں ( 2008 سے 2001) میں صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔
غنی نے نا صرف انڈیا کے ساتھ طے شدہ اسلحہ معاہدہ معطل کیا بلکہ انہوں نے پاکستان مخالف عسکریت پسند گروہوں سے نمٹنے کیلئے اپنی فوج کو مشرقی افغانستان بھی منتقل کیا۔
مشرف کے خیال میں غنی کا سب سے احسن اقدام رواں مہینے چھ آرمی کیڈٹس کو پاکستان تربیت کیلئے بھیجنا ہے۔
کرزئی نے پاکستان کی جانب سے افغان فوجیوں کی تربیت کی پیشکش مسترد کر کے مشرف اور سابق فوجی سربراہ اشفاق کیانی کو نالاں کیا تھا۔ کرزئی نے پاکستان کے بجائے اپنے کیڈٹس کو انڈیا بھیجا، اور مشرف کا خیال ہے کہ وہاں ان کیڈٹس کے ذہنوں کو پاکستان کے خلاف بھرا گیا۔
کراچی میں اپنی پرآسائش رہائش گاہ پر گفتگو میں سابق فوجی صدر نے بار ہا عندیہ دیا کہ پاکستان نے روائتی حریف انڈیا کا اثر و رسوخ پر چیک رکھنے کیلئے افغانستان میں نیٹو فورسز اور طالبان دونوں کی معاونت کی۔
‘پاکستان اور انڈیا کی اپنی اپنی پراکسیز تھیں،جو اچھی بات نہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ انتہائی مضر ہیں۔ ان سے افغانستان، پاکستان اور انڈیا کسی کو کوئی فائدہ نہیں۔ انہیں روکنا ہو گا’۔
مشرف نے بتایا کہ پاکستانی جاسوس 2001 کے بعد طالبان کی مدد کر رہے تھے کیونکہ کرزئی حکومت میں غیر پشتونوں کی اکثریت اور انڈیا نواز افسر شامل تھے۔
‘ظاہر ہے ہم پاکستان کے خلاف ہندوستانی سرگرمیوں پر چیک رکھنے کیلئے کچھ گرہوں کی مدد چاہتے تھے۔اوریہیں سےانٹلیجنس کا کام شروع ہوتا ہے۔طالبان گروپ رابطوں میں تھے اور انہیں ہونا بھی چاہیئے تھا’۔
مشرف کا اصرار تھا کہ وہ انڈیا مخالف نہیں لیکن انہیں انڈیا کی جانب مغربی تعصب پر غصہ ہے۔
‘انڈیا سب سے بڑی جمہوریت ہے، وہ انسانی حقوق اور جمہوری کلچر کے پروموٹر ہیں؟ یہ سب بکواس ہے۔’
‘وہاں کوئی انسانی حقوق نہیں، حتی کہ دیہی علاقوں میں اگر کسی اچھوت کا سایہ بھی کسی پنڈت پر پڑ جائے تواسے قتل کیا جا سکتا ہے’۔
مشرف کا ماننا ہے کہ انڈیا را کے ذریعے پاکستان کو توڑنے کی کوششوں میں مصروف علاقائی علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہا ہے۔
‘انڈیا کی را اور پاکستان کی آئی ایس آئی آزادی کے بعد سے ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں۔ یہی ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے’۔
‘اسے رکنا ہو گا۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب دونوں ملکوں کی قیادت باہمی مسائل حل کرنے کیلئے اپنا عزم دکھائیں’۔
خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے 2013 میں واپس پاکستان آنے والے سابق صدر پر بیرون ملک جانے پر پابندی ہے۔
مشرف نے بتایا کہ پابندی کی وجہ سے وہ بیرون ملک پرکشش معاوضہ پر لیکچر دینے اور دبئی اور لندن میں اپنے گھر جانے سے محروم ہیں۔
مشرف کہتے ہیں کہ وہ ان دنوں شہروں میں اپنے گزرے دنوں کو بہت یاد کرتے ہیں ، جب وہ اکیلے ہی بغیر کسی سیکورٹی ریسورانوں میں جا سکتے تھے۔
تاہم، ان کا خیال ہے کہ بہت سے مسائل تقریباً حل ہونے والے ہیں اور وہ اس کیلئے فوج کے شکر گزار ہیں۔
‘مجھے اپنے ادارے پر فخر ہے۔ وہ اپنے سابق سربراہ کی عزت اور رتبہ کے تحفظ کیلئے جو کچھ کر رہے ہیں، مجھے اس پر فخر ہے’۔