گزشتہ بیس سالوں سے افغانستان میں جاری شورش نے جہاں افغانستان میں سیاسی ،سماجی اور ثقافتی اثرات مرتب کیئے وہی ہمسایہ ممالک پاکستان خصوصاً صوبہ بلوچستان پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ دسمبر 1979ء سے شروع ہونیوالی روسی مداخلت سے لیکر نائن الیون کے واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث جو مسائل سامنے آئے ان میں لاکھوں افغان مہاجرین نے بلوچستان کا رخ کیا اور یہاں رہائش پذیر ہوئے جس کی وجہ سے بلوچستان میں امن وامان سمیت معاشی مسائل نے جنم لیا۔صوبے بلوچستان میں اس وقت بلوچستان کی قوم پرست رہنماؤں سمیت سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے 50 فیصد سے زائد کاروبار پراس وقت افغان مہاجرین قابض ہیں جن میں ٹرانسپورٹ،ہوٹلنگ،پراپرٹی،کرنسی سمیت چھوٹے بڑے کاروبار شامل ہیں،
افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے مرکزی و صوبائی حکومت نے اعلان تو کیا ہے مگر ان کو واپس اپنے وطن بہ حفاظت بھیجنا اس تمام صورتحال میں مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ بلوچستان میں نہ صرف وہ سیاسی طور پر اثرانداز ہورہے ہیں بلکہ بلوچستان کی معیشت پر بھی ان کا بڑا اثر و رسوخ دیکھا جاسکتا ہے۔افغانستان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جو بلوچستان کے لیئے مزید مشکلات اور مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ جس کے باعث 1980ء میں حکومت پاکستان نے ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’ افغان مہاجرین کمشنریٹ ‘‘ کے نام سے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا ، جو افغان مہاجرین کے اندراج ‘خوراک ‘ پانی ‘ صحت ‘ تعلیم ‘ ہنر کاری ‘ اور دیگر سہولتوں کے اہتمام و انتظام کی ذمہ داری تھی۔ یواین ایچ سی آر کے مطابق اس وقت بلوچستان میں تین لاکھ 27 ہزار سات سو 80 افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں جبکہ دس مہاجرین کیمپ میں آباد ہیں جبکہ قوم پرست جماعتیں اس بات پر متفق نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں کوئٹہ،پشین،ژوب،لورالائی میں افغان مہاجرین مستقل رہائش پذیر ہیں۔قوم پرست و سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی بلوچستان میں اس قدر مداخلت موجود ہے کہ وہ صوبے میں بھاری اکثریت میں ووٹ دیکر کسی بھی جماعت کو کامیاب کراسکتے ہیں جس کی حالیہ مثال 2013 کے جنرل الیکشن ہیں۔ بلوچ قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ افغان مہاجرین نہ صرف صوبے میں امان وامان کا مسئلہ بن رہے ہیں بلکہ اب تو سیاسی حوالے سے بھی ان کا عمل دخل شروع ہوچکا ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد سیاسی و عسکری قیادت اس بات پر متفق ہیں کہ افغان مہاجرین کی جلد وطن واپسی سے ہی امن وامان کی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے۔مگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی اس قدر آسان نہیں بلکہ سویلین و عسکری قیادت کو سخت فیصلے کرنے ہونگے۔ ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے صورت حال بدل دی ہے بیشتر افغان مہاجرین کو دہشت گردی کا موجب سمجھا جاتا ہے جس کے باعث موجودہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سویلین و عسکری قیادت نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے تاکہ ملک میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری آسکے۔ صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ 2015 تک غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنائینگے ، جہاں تک صوبائی حکومت کو ہدایت ملے گی قومی ایکشن پلان کے تحت اس پر مکمل عملدرآمد کیا جائے گا۔صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس کے دوران اس بات سے مکمل انکار کیا کہ اس وقت صوبے میں غیر قانونی طور پر کوئی بھی افغان مہاجر موجود نہیں بلکہ تمام رجسٹرڈ ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بنارکھے ہیں۔ بلوچستان سے لاکھوں افغان مہاجرین کی بحفاظت وطن واپسی شاید اتنا آسان نہ ہو مگر حکمرانوں کی جانب سے جب تک ٹھوس و کڑے فیصلے ہیمہاجرین کی بحفاظت وطن واپسی کو ممکن بنا سکتی ہے کیونکہ عرصہ دراز سے افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے محض اعلانات کیے گئے مگر اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس کے باعث آج بھی ان کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جو مستقبل میں بلوچستان سمیت ملکی امن وامان کیلئے بڑے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
بلوچستان سے افغان مہاجرین کی واپسی ایک چیلنج
وقتِ اشاعت : February 13 – 2015