بلوچستان میں حکومت سازی سے متعلق مری میں طے پانے والا معاہدہ منظر عام پر آگیا۔ معاہدے کے مطابق پہلے ڈھائی سال کے لئے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جبکہ باقی ڈھائی سال کے لئے مسلم لیگ نون کے نواب ثناء اللہ زہری بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہونگے۔ گزشتہ روز اس بات کا اعتراف وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران کیا۔ اس سے قبل ان باتوں کو محض افواہقرار دیاجارہا تھا مگر میاں محمد نواز شریف کی جانب سے مری معاہدے کی تصدیق کرنے کے بعد اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ڈھائی سال بعد مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں وزارت اعلیٰ ملے گی۔ پشتونخواہ میپ کے حصے میں آنے والی گورنرشپ سمیت 6 وزارتوں کو بھی مری معاہدے کا حصہ سمجھا جاتا ہے، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو تیسرے اتحادی کی حیثیت سے مری معاہدے کے تحت بلوچستان میں یہ عہدے ملے مگر تاہم مخلوط حکومت میں شامل پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے۔ دوسری جانب یہ قیاس آرائیاں بھی سامنے آرہی ہیں کہ مری معاہدے سے ہٹ کر کوئٹہ کی مئیر شپ بھی وزیر اعظم کی مداخلت کے بعد پی کے میپ کو ملی اور ڈپٹی میئر شپ مسلم لیگ ن کے حصہ میں آئی جس کی حمایت نیشنل پارٹی نے کی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سینٹ انتخابات کے موقع پر وزیر اعظم کی جانب سے مری معاہدے کی تصدیق صوبے میں اپنے ناراض ارکان پارلیمنٹ کو متحد رکھنے کی کوشش دکھائی دیتی ہے تاکہ سینٹ میں بھی یہ اتحاد برقرار رہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے مری معاہدے کی تصدیق کے بعد بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔اس سے قبل اگر ڈیڑھ سال کے دوران بلوچستان میں چلنے والی حکومت پر نظر دوڑائی جائے تو کئی ایسے موڑ آئے جب مسلم لیگ ن بلوچستان کے اراکین اسمبلی اپنے اتحادیوں سے نالاں دکھائی دئیے، جس میں بلوچستان اسمبلی میں امن وامان پر طویل اجلاس کے بحث کے دوران مسلم لیگ ن کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سینئر وزیر نواب ثناء اللہ خان زہری نے صوبے کے امن وامان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور حکومت پر کڑی تنقید کی۔ جب میڈیا سے بات چیت کے دوران نواب ثناء اللہ خان زہری نے اس بات کا برملا اظہار کیا کہ امن وامان کے متعلق اسمبلی کے آخری سیشن کے دوران اٹھائے گئے سوالات پر وزیراعلیٰ بلوچستان کے جوابات تسلی بخش نہیں تھے اور انہوں نے تمام سوالات کے جوابات گول کردئیے، اسمبلی فلور پر مسلم لیگ ن کے ہی وزیر داخلہ میرسرفراز بگٹی نے امن وامان سے متعلق اٹھائے گئے سوالات پر 30 سیکنڈ میں اپنی بات اس طرح سمیٹ لی کہ مجھے اگر اپنی پسند کی ٹیم بنانے کی اجازت دی جائے تو صوبے میں امن وامان کو سو فیصد یقینی بناؤنگا۔ یہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وزیر داخلہ نے اپنے بے اختیار ہونے کا اظہار اسمبلی فلور میں سب کے سامنے کیا۔ مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے درمیان کشیدگی اس قدر بڑھ گئی کہ مسلم لیگ ن کے مرکزی قائدین راجہ ظفرالحق کی قیادت میں کوئٹہ پہنچے اور اپنے صوبائی رہنماؤں کی شکایات سنے، میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے صوبائی رہنماؤں کی شکایات سن لی ہیں اور اب ہم اپنے اتحادیوں سے بیٹھ کر ان معاملات پر گفتگو کرینگے اور کوشش ہوگی کہ معاملات کو بہتر طریقے سے حل کریں وگرنہ بلوچستان میں ہمارے پاس اکثریت موجود ہے، جب کوئٹہ کے میئر و ڈپٹی میئر شپ کا معاملہ آیا تو یہاں بھی مسلم لیگ ن بلدیاتی الیکشن سے ایک روز قبل تک اپنے اتحادیوں سے ناراض دکھائی دے رہی تھی مگر اچانک رات کو مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے میئر شپ پشتونخواہ میپ جبکہ ڈپٹی میئرشپ مسلم لیگ ن کے حصے میں آئی، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے آخری مرحلے کے دوران تین روز تک میاں محمد نواز شریف، پشتونخواہ میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کے درمیان اجلاس چلتا رہا جس پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا کہ میئر و ڈپٹی میئر شپ کس کو دینے ہیں۔ اب سینیٹ کے الیکشن ہونے جارہے ہیں اس دورانیہ میں بلوچستان کی مخلوط حکومت میں اتفاق پیدا ہوگیا ہے۔ فی الوقت یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ڈھائی سال بعد مسلم لیگ ن کے حصے میں بلوچستان کی وزارت اعلیٰ آئے گی یا نہیں مگر صوبے میں سیاسی حوالے سے مختلف تبدیلیاں رونما ہونے کے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔
صوبے کی مخلوط حکومت۔۔۔۔مری معاہدے کی پاسداری
وقتِ اشاعت : February 17 – 2015