بلوچستان میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہمیشہ سے اہم مسئلہ رہا ہے ‘ قدرتی وسائل سے مالامال صوبے کے غریب عوام ہر شعبہ میں دوسرے صوبوں کی نسبت خاصے پیچھے ہیں جس کی اولین ذمہ داری تو یہاں پر قائم ہونی والی مخلوط حکومتوں اور وفاق پر عائد ہوتی ہے تاہم یہاں پربااثر شخصیات کی جانب سے بھی عدم توجہی اس زبوں حالی کی ایک اہم و جہہے ‘ گزشتہ دنوں صوبائی مشیربرائے تعلیم رضامحمدبڑیچ نے تعلیم کی ایک بھیانک تصویرپیش کی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ بیس لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے اور سات ہزار اسکولوں میں ایک ایک استاد ہے ‘ صوبے میں اسکولوں کی تعداد بھی بارہ ہزار ہے جس میں گھوسٹ اسکول بھی شامل ہیں ‘ اکیسویں صدی میں اسطرح بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا ایک جرم ہے اور آئین میں بھی باقاعدہ اسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے ‘ حکومت کی جانب سے تعلیم کا بجٹ بڑھا دیا گیا ہے تاہم یہ بجٹ صرف تنخواہ اور اسکولوں کی اپ گریڈیشن کی مد میں خرچ ہوئے ہیں ۔اسکے علاوہ وزیر اعلیٰ بلوچستان بھی خاصی دلچسپی سے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاہم اکیسویں صدی میں عوام کو صرف مثبت نتائج سے مطمئن کیاجاسکتا ہے ‘ بیس لاکھ بچوں کا اسکول نہ جانا ایک بہت بڑا المیہ بلکہ آدھی سے زیادہ آبادی کو ناخواندہ رکھنا ہے جو کسی بھی صوبے و ملک کیلئے انتہائی افسوسناک بات ہے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے جس کے حل کیلئے نہ صرف وزیراعلیٰ اور متعلقہ محکمہ حکام بلکہ تمام منتخب نمائندے ‘ ڈپٹی کمشنرز‘ اور تحصیل کی سطح کے افسران کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اتنا بڑا گیپ وسائل سے بھی مکمل ہونا ناممکن ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں قبائلی شخصیات کی جانب سے قابل تحسین اقدامات کیئے گئے جس میں نواب رئیسانی کی طرف سے انکے آبائی علاقے میں ایجوکیشن انکلیو بنایا گیا اور سردار یار محمد رند کی جانب سے ہائی اسکول تعمیر کیاجارہا ہے۔ ‘ ایسے قدامات سے تعلیمی زبوں حالی پر قابو پانے میں کافی مدد مل سکتی ہے تاہم ان تمام قبائلی رہنماؤں کوچاہیے کہ اس جانب مزید سنجیدگی سے اقدامات کریں تاکہ مثبت نتائج جلد برآمد ہوں اور باقاعدہ مقابلے کا رجحان سامنے آئے اور عوام کو یہ بتایا جائے کہ کس کے علاقے میں خواندگی کی شرح کتنی ہے۔ بہتر سے بہتر نتائج دینے والوں قبائلی رہنماؤں کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ تاریخ میں انکا نام لکھا جائے گا ‘ دوسری جانب ایک نجی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ معتبر پشتون رہنما محمود خان اچکزئی کے علاقہ انتخاب میں خواندگی کی شرح بھی بہت کم ہے ‘ محمود خان اچکزئی ایک پروگریسو قبائلی رہنماہیں جن کو چاہیے کہ وہ اس کو اپنا اولین منشور بناتے ہوئے اسکا جواب دیں اور اپنے حلقہ میں خواندگی شرح ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے بہتر بنائیں ‘ اسکے علاوہ دیگر قبائلی رہنماؤں کے حلقہ انتخاب میں بھی تعلیم کی حالت ناگفتہ بہ ہے ‘ اس مسئلے کواجتماعی ذمہ دار سمجھتے ہوئے بلوچستان میں معاشرے کے ہرفرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اگر اسے سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی اور ناخواندہ لیڈر کے نام سے ہمیں یاد کیا جائے گا۔ اکیسویں صدی میں تعلیم کی ایسی حالت دنیا میں مشکل سے ملتی ہے اسلئے اس پرسنجیدگی انتہائی ضروری ہے ۔