|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیراہتمام مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پراورشہداء جیونی کی برسی کے سلسلے میں جلسہ واپڈاترمل کالونی ائیرپورٹ روڈمیں منعقد ہواجلسے سے پارٹی کے مرکزی میڈیاکمیٹی کے رکن ضلعی ڈپٹی آرگنائزرغلام نبی مری،آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن کیچی بیگ یونین کونسل کے چےئرمین حاجی فاروق شاہوانی ،ہدایت اللہ جتک،محمدلقمان کاکڑ،محمدادریس پرکانی،محمدعارف جتک اورمحمدعثمان جتک نے خطاب کیاجبکہ اس موقع پر سٹیج سیکرٹری کے فرائض پارٹی کے رہنماء محمداکبرکرد نے سرانجام دئیے اس موقع پرپارٹی کے رہنماء محمدوارث کرد ایڈووکیٹ ،رضاجتک ،نذیراحمدسمالانی،قادرشاہ،محمدصادق جتک،وحیدسمالانی،سیف اللہ سمالانی،صدام جتک،کریم سمالانی،میرعبدالہادی اورجمیل احمدموجود تھے شہداء جیونی کے قربانیوں کی یادمیں دومنٹ کھڑے ہوکرخاموشی اختیارکی گئی مقررین نے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جانب سے مادری زبانوں کی ترویج وترقی کیلئے آج کی دن کومنانے کافیصلہ قابل ستائش ہے ہمارے اکابرین نے ہمیشہ مادری زبانوں کی اہمیت کے حوالے سے آوازبلند کرتے ہوئے جدوجہد کی اوراسی کی پاداش میں ہمارے اکابرین کے اصولی موقف کوتسلیم نہیں کیالیکن آج اقوام متحدہ نے تمام ممالک کوپابند کیاہواہے کہ وہ مادری زبانوں کوتعلیمی ،سرکاری اوردیگرشعبہ ہائے زندگی میں حیثیت واہمیت سے قوموں اورملکوں کی ترقی وابستہ ہے آج دنیاکے تمام ماہرلسانیات اس بات سے متفق ہے کہ مادری زبانوں کے بغیرکوئی بھی ملک اورقوم ترقی نہیں کرسکتاہے افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑتاہے کہ یہاں ہزاروں سالوں کی قومی زبانوں کونظراندازکیااورقوموں کی تہذیب وتمدن بقاء وسلامتی کیلئے کوئی خاص حکمت عملی اورپالیسی نہیں بنائی گئی ایسے زبانوں کوڈویلپ اورمسلط کرنے کی کوشش کی گئی جن کایہاں کے قوموں سے کوئی تعلق نہیں تھابلوچی زبان ایک قومی زبان کی حیثیت رکھتاہے جوکہ یہاں نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک میں بھی اکثربولی جاتی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ اوران کے آواریوں نے بلوچستان کی قومی زبانوں کوہمیشہ نظراندازکیااوربلوچستان کی قدیم ترین قومی زبانوں کی ترویج واہمیت کیلئے ملکی اوربین الاقوامی سطح پرمتعارف کرانے پرکوئی خاص توجہ نہیں دیاجس کے نتیجے میںآج بلوچی زبان جس بدحالی اوردیگرمسائل سے دوچارہیں وہ حکمرانوں کی امتیازی سلوک اورنارواپالیسیوں کاتسلسل ہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں جب بھی حقیقی قوم پرستوں کی حکومت گزریں ہیں انہوں نے یہاں پرمادری زبانوں کی حوالے سے اہم فیصلے اوراقدامات کیلئے اقدامات اٹھائے مگربیوروکریسی نے مسائل پیداکرکے بلوچی براہوی اوردیگرمقامی زبانوں کے حوالے سے پسماندہ رکھابلوچوں کی ہزاروں سالوں سے محیط مہرگڑھ کاہسٹری کوآج تمام تہذیب یافتہ ترقی یافتہ ممالک میں حیثیت اوراہمیت حاصل ہے کیونکہ مہرگڑھ دراصل بلوچوں کی قدیم ترین زبان رسم رواج تہذیب وتمدن کی عکاسی کرتاہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے بلوچوں کی ہزاروں ہسٹری پرمشتمل مہرگڑھ کوکبھی بھی پروان نہیں چڑھانے دیامگران کے مقابلے میں ایسے تہذیب وتمدن کومتعارف کرایاجن کایہاں کے قوموں سے کوئی تعلق نہیں انہوں نے کہاکہ حکمرانوں کارویہ آج بھی یہاں کے مادری زبانوں کیساتھ سلوک امتیازی ہے وہ بلوچستان کی قدیم ترین زبانوں کواس اندازمیں کوریج اورنمائندگی سے محروم رکھ رہے ہیں حالانکہ یہ ملک ایک کثیرالقومی ملک ہے یہاں کے اکائیوں کوبرابری کی بنیادپرمرکزی سطح پرنمائندگی دینے کی جوکہ نہیں دیاجارہاہے انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے قومی اکابرین شعراء ادیبوں اورقومی ہیروز کونصاب میں شامل نہیں کیاجاتاہے اورہمارے بچوں کوآج بھی ایسے نصاب میں تعلیم دی جاتی ہے جس کے ہمارے معاشرے اورقومی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہیں انہوں نے کہاکہ 21ویں صدی جوکہ سائنس ٹیکنالوجی ترقی وخوشحالی ،علم وآگاہی کاصدی ہے مزیدقوموں کوطاقت کے زورپراپنے قومی حقوق سے محروم رکھنااورمادری زبانوں کونظراندازکئے جانے سے کسی بھی صورت میں بحرانوں کوختم نہیں کیاجاسکتاہے بلکہ ایسے غلط فیصلوں کے نتیجے میں بحرانی کیفیت کی طرف گامزن ہوگاانہوں نے کہاکہ آج جن ملکوں نے ترقی کیاہے یاہم سے آگے ہے جس کابنیادی زبانوں کوسرکاری سطح پرترویج دی ہیں۔مقررین نے شہداء جیونی کی قربانیوں کوزبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ ضیاء کے دورحکومت میں جیونی کے نہتے عوام نے پینے کے صاف پانی کے حصول کیلئے ایک پرامن احتجاجی ریلی نکالی جس میں عورتیں،معصوم بچے شامل تھے تاکہ حکام بالاتک اپنے آوازکوپہنچایاجاسکے جس میں ایک گیارہ سالہ بچی یاسمین بھی شامل تھی لیکن انتظامیہ نے اس پرامن ریلی پرفائرنگ کرکے جس کے نتیجے میں11سالہ بی بی یاسین بلوچ شہیدہوئی اوریہ ثابت کیاکہ یہاں کے عوام کواپنے پرامن جدوجہد کے اندازمیں بنیادی ضروریات زندگی کیلئے حق نہیں اوران کے سیاسی اورجمہوری آوازکوبزورطاقت کچلایاجاتاہے جوکہ ناانصافیوں کامنہ بولتاثبوت ہے آج بھی بلوچستان کے اکثرعلاقوں میں وہاں کے عوام بوندبوند پانی کیلئے ترس رہے ہیں اوربنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے قدرتی دولت کے مالک زندگی کے بدترین پسماندگی اورمعاشی استحصال کے شکارناانصافیوں کاسامناکرتے ہوئے زندگی بسرکررہے ہیں انہوں نے کہاکہ موجودہ حکمرانوں کے ترقی وخوشحالی کے دعوے صرف اورصرف اخباری بیانات تک محدود ہے عملی طورپرکچھ بھی نہیں کررہے اقتدارسے پہلے ایک توعوام کی فلاح وبہبود اوردیگرضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے بلندوبانگ دعوے کررہے تھے مگراقتدارتک رسائی کے بعدوہ عوامی مطالبات بھول چکے ہیں ان کی نظریں اورتوانایاں صرف اورصرف اقتدارکی کرسی پرمرکوز ہے جس کوآنے والی تاریخوں میں اچھے الفاظ سے یادنہیں کیاجائیگا۔