|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2015

کوئٹہ: رکن بلوچستان صوبائی اسمبلی محترمہ راحیلہ حمیددرانی ،وزیراعلیٰ کے مشیرقیصر بنگالی ،سیکرٹری تعلیم عبدالصبور کاکڑ نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے صوبے میں تعلیم کی بہتری اور طلباء4 و طالبا ت کو بہتر تعلیمی سہولیات کی فراہمی کیلئے ہرممکن اقدامات اٹھائے ہیں صوبے سے نقل کے خاتمے کیلئے امتحانات کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے ،رواں سال ’’ ویلکم اسکول پروگرام‘‘ کے زریعے صوبے بھر سے 6لاکھ بچوں اور بچیوں کو اسکولوں میں داخل کرائیں گے۔یہ بات انہوں نے بوائے سکاؤٹس ہیڈ کوارٹر میں اثر کی جانب سے سالانہ تعلیمی رپورٹ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہی تقریب کے دوران آئی ٹی اے کی ڈائریکٹر بیلہ رضا جمیل نے سالانہ رپورٹ پیش کی تقریب سے ڈائریکٹر تعلیم سلیم اختر اور ادارہ تعلیم کے صوبائی سربراہ سید تنظیم نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے راحیلہ درانی نے کہا کہ صوبے میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے میں بہت سے رکاوٹیں درپیش ہے مجھے بذات خود تعلیم اور ایم پی اے بننے میں بہت سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑاہے بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے پہلے دور میں 100فیصد بجٹ تعلیم پر خرچ کیاہے اور اب بھی کرتی ہوں بلوچستان میں حالات کے باعث تعلیم پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ہم نے اپنے بہت سے قابل اساتذہ بھی کھوئے ہیں ہمارے پاس ضائع کرنے کیلئے وقت نہیں ہمیں تعلیم کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صبور کاکڑ نے کہاکہ عالمی اداروں سے بلوچستان کو 28.7ملین یوروملنے کی توقع ہے جوکہ تعلیم کے فروغ کیلئے استعمال ہونگے بلوچستان کو باقی صوبوں سے ملانا درست نہیں انہوں نے کہاکہ نقل کی روک تھام کے حوالے سے مہم کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں میٹرک تمام پرچوں میں سیکرٹری حضرات خود جاکر دیکھے گے کہ سینٹر میں نقل ہورہی ہے یا نہیں انہوں نے کہا کہ یکم مارچ سے ویلکم اسکول مہم بھی شروع کررہے ہیں جس کے زریعے 6لاکھ بچوں کو اسکول میں داخل کیا جائیگا۔اسکول میں داخل ہونے والے بچوں کے نام پر ایک ایک درخت بھی لگایا جائیگا اور بچیوں کو اسکول یونیفارم اور بیگ ،کھلونے مہیا کئے جائیں گے جن سے انہیں گھر جیسا ماحول مل سکے گا ای ایم ایس سسٹم کے بہتر نتائج کیلئے بھی کوشاں ہے تمام تر عالمی اداروں نے اس بات کو سراہا ہے کہ ہم نے بجٹ کا چوبیس فیصد حصہ تعلیم کیلئے مختص کیا ہے بلوچستان کے تعلیمی معیار کو پنجاب یا کسی اور صوبے سے ملانا درست نہیں اگر موجودہ حکومت اسی جذبے کے ساتھ اگلے ڈھائی سال تک محنت کرے تو تعلیم میں بہت ترقی اور بہتر نتائج پیش کرسکتے ہیں اثر کی تعلیم کے حوالے سے سالانہ رپورٹ کا اجراء4 4 خوش آئند ہے۔تقریب سے وزیر اعلیٰ کے مشیر قیصر بنگالی ڈائریکٹر تعلیم سلیم رضا اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ آئی ٹی اے کی ڈائریکٹر بیلا رضا جمیل نے سالانہ اثرسروے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ 2014ء4 میں بلوچستان میں ابھی بھی سکول نہ جانے والے 6سے 16سال کی عمر کے بچوں کی شرح 33فیصد ہے باقی کے 6سے 16سال کی عمر کے 67فیصد بچے سکول میں پڑھ رہے ہیں جبکہ گزشتہ 66کی نسبت اس شرح میں اضافہ ہوا ہے بلوچستان بھی سکولوں میں بچوں کے اندراج اور سیکھنے کے معیار میں بہترط کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ 10ہزار شہری رضاکاروں نے اثر سروے کے نتائج 60535بچوں (جن میں 39فیصد لڑکیاں ہیں) کے بارے میں تفصیلی معلومات اکٹھی کرکے مرتب کئے ہیں انہوں نے 947دیہہاتوں میں 18536گھرانوں کا ذاتی طور پر سروے کیا اثر سروے بلوچستان کے 32دیہی اور 2شہری حلقوں میں کیا گیا جہاں 5سے 16سال کی عمر کے 42379بچوں کی زبان( اردو ،پشتو) انگرزی اور ریاضی میں مہارت کے حوالے سے جائزہ لیا گیااس رپورٹ کا مقصد آئین کی شق 25/Aجوکہ تعلیم کو پانچ سے سولہ سال کے بچوں کا بنیادی حق قرار دیتی ہے کہ حوالے سے 2010ء4 4 سے اب تک ہونے والی کسی بھی پیش رفت یا اس کی کمی کوسامنے لانا ہے اب تک اس شق کا کہیں عملی نفاذ نہیں ہوا کیونکہ اس سے متعلق قوانین اور قوائد ابھی تک کہیں خلا میں ہی ہیں عوامی مطالبے کے باوجود تعلیم کو بنیادی ضرورت سمجھتے کے حوالے سے ریاست کا ردعمل بہتر سے بہترا لفاظ میں لاپرواہی کہا جاسکتا ہے پارلیمنٹ کے عام اراکین اور وزراء4 4 بطور ذمہ داران کے خ 182د احتسابی وعدے کئے تھے مگر ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سرکاری شعبے کی نسبت نجی شعبہ میں طلبہ کی کارکردگی بہتر رہی ہے وہ تعلیمی معیار کے حوالے سے ہو یا طلبہ اوراساتذہ کی حاضری کے حوالے سے ہو۔سروے میں دیئے گئے ایک موازنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دیہی اور شہری علاقے میں بہتر رسائی کے حوالے سے 67فیصد دیہی علاقوں کی نسبت94فیصد شہری بچے سکولوں میں ہیں اوربنیادی ڈھانچے کی بھی یہی صورتحال ہے تاہم دیہی علاقوں میں تعلیمی معیار قدرے بہتر رہا مقابلتاً شہری علاقوں کے جہاں ٹیوشنز کا زیادہ رجحان تھا۔