|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2015

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان کے ضلع لورالائی کی تحصیل دکی میں کوئلہ کان میں پھنسے سات کانکنوں کی لاشوں کو تیسرے روز بھی نہیں نکالا جاسکا۔ کمشنر ژوب ڈویژن حادثے کے پینتالیس گھنٹے گزرنے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچے ۔جمعرات کی صبح دکی کے مقامی کوئلہ کان گیس دھماکے سے منہدم ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں میں ایک کانکن جاں بحق جبکہ سات پھنس گئے تھے ۔ انتظامیہ کی جانب سے ریسکیو آپریشن میں تاخیر کی وجہ سے ساتوں کانکن دم توڑ گئے ۔ جاں بحق ہونے والے کانکنوں کی لاشوں کو تیسرے روز بھی نہیں نکالا جاسکاجس کی وجہ سے ان کے اہلخانہ اور کانکنوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ریسکیو آپریشن کیلئے تربیت یافتہ عملہ اور نہ ہی مشنری دستیاب ہے جس کی وجہ سے ریسکیو آپریشن کا انحصار بھی کانکنوں پر ہی ہے ۔کا نکن پانچ سو فٹ زیر زمین کان میں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ گیس کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ملبہ ہٹانے اور لاشیں نکالنے میں مشکلات درپیش ہیں۔ جاں بحق ہونے والے کانکنوں کا تعلق پختونخوا کے علاقے شانگلہ سے ہے ۔شانگلہ سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عباد اللہ کانکنوں سے اظہار یکجہتی کیلئے دوسرے روز ہی متاثرہ علاقے پہنچ گئے جبکہ لورالائی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ کے مشیر رکن صوبائی اسمبلی عبیداللہ بابت اور کمشنر ژوب ڈویژن فواد ہاشم تیسرے روز موقع پر پہنچے ۔ ڈپٹی کمشنر لورالائی شاہ زیب کاکڑ بھی تعطیلات چھوڑ کر دکی پہنچ گئے اور متاثرہ کوئلہ کان کا دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ کے مشیر عبیداللہ بابت کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور اس کی تحقیقات کرائی جائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ جاں بحق کارکنوں کے اہلخانہ کی مالی امداد بھی کی جائے گی۔ بلوچستان میں کوئلہ کی کانوں میں حادثات معمول بن چکے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں ہر سال حادثات میں اوسطاً سو کانکن موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ کوئلہ کان مالکان سالانہ کروڑوں روپے آمدنی کے باوجود حفاظتی انتظامات پر کوئی توجہ نہیں دیتے جس کا خمیازہ کانکنوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔