کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سینٹ انتخابات میں نیشنل پارٹی جو بی این پی کی ایک ووٹ مقروض ہے اس حوالے سے بی این پی نے نیشنل پارٹی کی قیادت سے رابطہ کر کے بات چیت کی تھی اور اس متعلق پارٹی بیان بھی جاری کیا اور وضاحت کی کہ بی این پی نے 2006ء میں نیشنل پارٹی ، جمہوری وطن پارٹی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ جو سینٹ انتخابا ت کے حوالے سے مشترکہ امیدوار وں کو کامیاب کرنے کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی تھی اور پارٹی نے اس موقع پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ایک ووٹ دیا اور اب نیشنل پارٹی بلوچی روایات زبان کی پاسداری کرے اور وقت بتائے گا کہ اپنی زبان کی لاج رکھیں گے یا نہیں جہاں تک نیشنل پارٹی کے ترجمان کا جو دعوی ہے کہ ہمیں بی این پی نے ووٹ نہیں دیا تو اس کی وضاحت موصوف کی اپنی پارٹی کے سابق صدر اوربزرگ رہنماء ڈاکٹر حئی بلوچ اپنے بیان میں تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں 2006ء میں نیشنل پارٹی کی قیادت ڈاکٹر صاحب کر رہے تھے انہی کے سامنے تمام معاملات طے پائے اب اس بات سے انکار کر نا درست نہیں کیونکہ قوم پرستی کے دعویدار اپنی زبان کی پاسداری ہی نہیں کر سکیں تو ان سے کیا توقع کہ وہ بلوچستان کے عوام سے کئے گئے وعدوں کو کیا نبھائیں گے ؟ ڈاکٹر حئی بلوچ کے اس بیان کے بعد تو اخلاقی طور پر موصوف کی پارٹی ندامت محسوس کرتی اور موصوف بھی اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ انہی کے اپنی ہی پارٹی کے بزرگ رہنماء نے موصوف کے دعوے کی نفی کر دی اور اب اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا جائے لیکن موصوف کی پارٹی قیادت و دیگر رہنماء دروغ گوئی من گھڑت باتوں کااب بھی سہارا لے رہے ہیں بی این پی کی سیاست ، تاریخ کھلی کتاب کی مانند ہے ہم کسی دروغ گو انسان کو یہ حق نہیں دیتے کہ پارٹی کی تاریخ کو مسخ کرے بلوچستان کا ہر ذی شعور انسان پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل کی سیاست ، ثابت قدمی اور مستقل مزااجی سے بخوبی واقف ہے جس کی ہمیں وضاحت کرنے کی ضرورت ہی نہیں بی این پی کی تاریخ چور دروازے سے اقتدار آنے کی نہیں بلکہ ہم نے ہمیشہ قومی مفادات کی خاطر سیاست کی اور ایسی ہی پالیسیوں کو اولیت دی جس سے بلوچ قوم کو نقصان نہ پہنچے لیکن موجودہ حکومت جو 2013ء کے جعلی انتخابات کے ذریعے اقتدار پر براجمان ہے اور اپنی نااہل حکومت کو طول دینے کیلئے بلوچوں کے مسخ شدہ نعشوں ، آپریشن ، لاپتہ افراد کی عدم بازیابی ، انسانی حقوق کی پامالی کو خاطر میں نہیں لا رہی گزشتہ دنوں مکران ، گشکور آپریشن میں جس بے دردی کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے مکران ، آواران ، ڈیرہ بگٹی ، کوہلو سمیت دیگر علاقوں میں ہونے والے مظالم اقتدار کے نشے میں مگن حکمرانوں کو نظر ہی نہیں آ رہے ہیں بلوچوں کے ساتھ کھیلی جانے والے خون کی ہولی نظر نہیں آ رہے ساون کے اندھوں کو ہر چیز ہری نظر آتی ہے ذرا موصوف یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ان کے پارٹی کے ایم پی اے حضرات اپنے حلقہ انتخابات میں کیا جا سکتے ہیں اقتدار کی خاطر اتنے مظالم نہ کریں کہ کل یہ حساب تک نہ دے سکیں ترجمان نے کہا کہ اگر پارٹی نے جمہوری طرز عمل اپناتے ہوئے اپنا امیدوار سامنے لایا تو اس میں کوئی قباحت نہیں کہ پارٹی کے دو صوبائی اسمبلی کے ممبران ہیں اور اگر پارٹی امیدوار کامیاب ہو یا نہ ہو وہ جمہوریت کا حصہ ہے موصوف کی بوکھلاہٹ ٹرپتی مچھلی کی مانندہے ترجمان نے کہا کہ جب ان کی پارٹی نے الیکشن بائیکاٹ تھا اسی دوران سینٹ کے انتخابات میں ان کے موجودہ صدر نے8ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی کیا یہ کامیابی ایسی ہی کامیابی نہیں2013ء کے جعلی انتخابات کے ذریعے مستند اقتدار تک پہنچنے کیلئے جس اڑن طشتری میں سفر کیا اس کی قیمت بلوچ نوجوانوں کا خون بہا کر ادا کی جا رہی ہے اور اب کچھ ٹھیک ہے کا راگ الاپ رہے ہیں ترجمان نے کہا کہ حکمران جماعت کو اقتدار تو مل گیا اگر انہیں مشیروں کے عہدوں تک فائز کیا بھی جاتا تو اسے بھی مال غنیمت سمجھ کر اسے بھی قبول کرے اور بلوچ مفادات کا سودا کرنے کیلئے بھی تیار ہو جاتے ریکوڈک ، سیندک ، گوادر سمیت دیگر میگا پروجیکٹس کاکک بیگز کی خاطر سودا کرنے کے میگا سکینڈلز کے سامنے آئے جو حقیقی پر مبنی ہیں اور آج تک اس کے حوالے سے بلوچ حکومت خاطر خواہ جواب دینے سے قاصر ہے ترجمان نے کہا کہ عوامی نمائندگی اور بلوچستان کے مسائل کے حل کے دعویدار جن قوتوں کی مرہون منت ہے انہی کی وجہ سے بھڑکیں ماری جا رہی ہیں کیا حکمران بلوچستان کے عوام کا سامنا کرنے کی بھی جسارت کر سکتے ہیں اور کیا زرغون روڈ کی حفاظتی حصار سے باہر ان کی پارٹی کا نام و نشان کس جگہ پایا جاتا ہے 2013ء کے عام انتخابات یا بلدیاتی انتخابات کس جماعت نے کن قوتوں کی دست شفقت کے ذریعے اقتدار تک رسائی حاصل کی بلوچستان کے ہر ذی شعور شہری اب بات سے بخوبی واقف ہیں حکمرانوں کو عوامی مینڈیٹ نہیں بلکہ کن قوتوں کا دست شفقت کس کے سر رہا عوام ان حقائق سے بخوبی واقف ہیں لیکن یہ بتانا بھی قومی فریضہ ہے کہ اسی دست شفقت کی بدولت الیکشن کے انعقاد بغیر پنجگور کی نشستیں کن کی جھولی میں ڈالی گئیں ترجمان نے کہا کہ حکومتی کارکردگی کے حوالے سے حکومتی اعداد و شمار کچھ بھی ہوں کس طرح حکومتی اقدامات کا واویلا مچایا جاتا رہے لیکن حقائق پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں حکومت کی بہترین کارکردگی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اب تک ایک بھی لاپتہ فرد بازیاب نہیں ہو سکا بلکہ انہی کے دور میں بلوچ نوجوانوں کو اب بھی اغواء کیا جا رہا ہے مسخ شدہ لاشوں کا ویرانوں میں ملنے کا سلسلہ تھما نہیں موجودہ دور حکومت میں ہی انسانیت سوز واقعہ سانحہ توتک ، عورتوں پر تیزاب پھینکنے کا انسانیت سوز واقعہ ، بلوچستان میں پولیس گردی ، آئے روز بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن ، چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی ، پنجگور میں تعلیمی اداروں کی بندش ، بلوچ علاقوں کیلئے مشتہر کی گئی 700کے قریب لیکچرارز کی آسامیوں کی منسوخی ، بلوچ کو پسماندہ اور معاشی طور پر پسماندہ کرنے کیلئے سنہرے حکومتی اقدامات ، وسائل کی کوڑیوں کے دام فروخت اقتدار بچانے کیلئے اتحادیوں کو خوش رکھنے کیلئے بلوچوں کا استحصال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں عوام جان چکے ہیں کہ موجودہ صوبائی حکومت اپنی اتحادیوں کی خوشنودی کی خاطر چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو بلوچستان میں آباد کرنے کی ٹھان چکی ہے اور اسی پالیسی پر گامزن ہے کہ چالیس لاکھ افغان مہاجرین کے انخلاء کی بجائے ان کی آبادکاری کیلئے انہیں شناختی کارڈز ، لوکل و دیگر دستاویزات فراہم کی جائیں تاکہ بلوچ قوم کو اپنی ہی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے کیا یہ ان کی قوم دوستی وطن دوستی ہے ؟ بلوچستان کے یونیورسٹیز سمیت دیگر تعلیمی اداروں سے بلوچ اساتذہ کی جگہ غیر بلوچوں کو تعینات کرنا اور پبلک سروس کمیشن جو خود مختار ادارہ تھا اس مفلوج کرکے میرٹ کی دھجیاں اڑا کر کھلم کھلا سیاسی مداخلت کیا یہ میرٹ ہے ؟ کرپشن کا یہ عالم ہے کہ پی اینڈ ڈی سے 14ارب روپے کے جو فنڈز جاری کئے گئے اور طرح کے میگا کرپشنز سے کرپشن کو ختم کیا جانا ممکن ہے ؟ترجمان نے کہا کہ ان کے پارٹی ترجمان نے کہا کہ ان کا ماضی میں کردار کسی بھی ڈھکی چھپی نہیں جنہوں نے بی این پی کو دولخت کرنے میں کسی اقدامات سے دریغ نہیں کیا اور پونم میں ہونے کے بعد غیر متحرک اور غیر فعال کردار ادا کرنا دراصل طلع آزما کی خوشنودی کی خاطر مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کو پس پردہ سپورٹ اور آمر وقت کے لئے نرم گوشہ رکھنا سب کے سامنے عیاں تھا یہی پارٹی ان دنوں میں اپنے ضلعی ناظمین ، تحصیل ناظمین اور یونین ناظمین کے ذریعے مشرف کے ایئرپورٹس پر استقبال کرنے سے گریزاں نہیں تھی اور الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز میں مشرف کے آمرانہ نظام کے گن گھاتے نہیں تھکتے تھے اور دلائل دیتے کہ یہ اچھا نظام ہے اس کا مطلب یہی لیا جائے کہ مشرف کو یہ جمہوریت کا چیمپئن قرار دینے سے بھی پیچھے نہیں رہے ترجمان نے کہا کہ موصوف شاید اقتدار کے نشے کے میں ماضی بھول چکے ہیں کہسابقہ دور حکومت میں محمد علی رند کے ساتھ ایم پی ہاسٹل میں پیش آنے والا واقعہ بھی کسی سے ڈھکا چھپانہیں کہ پیسے کے عیوض لوگوں کو ذہنی کوفت دینے اور انہیں اغواء کرنے میں کون سے عناصر ملوث تھے جو آج حکومت اور پارٹی ترجمان کہلاتے ہیں جب مشرف دور میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل سمیت پارٹی کے مرکزی و سیاسی ورکروں کی بڑی تعداد جیلوں ، اذیت گاہوں ، ٹارچرسیلوں میں اذیتیں برداشت کر رہے تھے اور نیشنل پارٹی کے اکابرین اس دور میں بھی مراعات سے مستفید ہو رہے تھے اور اگر ایک آدھ پارٹی رہنماء گرفتار ہوئے بھی تو انہیں حب سے فوری طور پر رہائی کی سعادت پر حاصل ہوئی ترجمان نے آخر میں کہا کہ بلوچستان کے ذی شعور بلوچوں کو اکیسویں صدی میں کوئی بھی اپنی من گھڑت جھوٹ پر مبنی تحریر، تقاریر ، بیانات ، ٹاک شوز اور شہ سرخیاں لگوا کر دھوکہ دینے دے سکتے ان موصوف اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ بلوچ قوم کا شیر کی کال میں بھیڑیئے کو نہ پہچان پائیں –
نیشنل پارٹی سینٹ انتخابات میں ہمارے ایک ووٹ کا مقروض ہے، قرض ادا کرے، بی این پی
وقتِ اشاعت : February 22 – 2015