کوئٹہ: بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ون انڈیا ڈاٹ کام کو دئیے گئے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ بلوچستان میں چین کی موجودگی بھارت کو غیر مستحکم کرے گا۔طالبان، لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ پاکستان کے اسٹراٹیجک اثاثے ہیں۔ پاکستان کا نیشنل ایکشن پلان اور فوجی عدالتیں بلوچ کیخلاف بنائے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں چین کا کردار سامراجی ہے۔ یہ بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے پاکستان کی فوجی اور مالی لحاظ سے مدد کررہا ہے۔ اسوقت چینی فوج کا ایک بڑا یونٹ گوادر میں موجود ہے۔بلوچ رہنما نے کہا کہ بھارت ایک آزاد بلوچ ریاست کے بغیر بحری برتری حاصل نہیں کر سکتا۔داعش بلوچستان میں لشکر جھنگوی، لشکر خراسان، لشکر طیبہ، انصار الاسلام کے نام پر موجود ہے۔ ان تمام انتہا پسند مذہبی تنظیموں کو اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔بلوچستان میں ہزاروں مکانات سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں میں جلائے گئے ہیں۔دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بمشکل ہی اس مسئلے کی نشاندہی کرتے ہیں اور حتیٰ کہ بلوچستان ان کی فہرستوں میں جگہ تک نہیں بنا پاتا۔ 14 فروری 2015 کو ڈاکٹر ثناء اللہ بلوچ کو ان کے زیر حراست لاپتہ بیٹے صدام، جوکہ ایک پولیس اہلکار ہے، کی رہائی کیلئے آواران میں فورسز کے کیمپ میں آنے کیلئے کہا گیا۔ 18 فروری کو ڈاکٹر ثناء اللہ کی مسخ شدہ لاش سڑک کے کنارے پائی گئی۔ سینکڑوں دیہاتی انہی کیمپوں میں اسی فورسز کی تحویل میں ہیں۔ لیکن بین الاقوامی برادری اور میڈیا مجرمانہ طور پر خاموش ہیں۔نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان، لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ پاکستان کے اسٹراٹیجک اثاثے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان اور فوجی عدالتیں بلوچ کیخلاف بنائے گئے ہیں۔ اب تک بلوچستان سے 152 مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے ہیں۔ اس کا انحصار دنیا پر ہے کہ وہ اسے کس طرح سے دیکھتے ہیں۔ بلوچستان میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بارے میں کہا کہ بلوچستان میں چین کا کردار سامراجی ہے۔ یہ بلوچ تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے ریاست کے فوجی اور مالی لحاظ سے مدد کررہا ہے۔ اسوقت چینی فوج کا ایک بڑا یونٹ گوادر میں موجود ہے۔ پاکستان نے گوادر میں چین کو تین ہزار ایکڑ زمین الاٹ کی ہے۔ لہٰذا بلوچ قوم چین کو ایک حصہ دار سمجھتا ہے۔ بلوچ قوم دونوں کیخلاف مزاحمت کریں گے۔چینی فوج کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد بلوچستان میں موجود ہے جوکہ بلوچ نسل کشی میں براہ راست ملوث ہیں۔ یہ نہ صرف بلوچ کیلئے بلکہ پورے خطے اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت کیلئے بھی ایک خطرہ ہے۔ اب چین پاکستان سے نئی قانون سازی کا مطالبہ کررہا ہے۔بلوچ کیلئے یہ قابل قبول نہیں ہے۔ میں اس بات کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ چین گوادر پورٹ کو ایک بحری اڈے کے طور پر بھی استعمال کر رہا ہے۔ چونکہ گوادر آبنائے ہرمز کے بہت قریب ہے۔ امریکہ اور بھارت اس کے بعد آنیوالے بھیانک نتائج کا سوچ بھی نہیں سکتے۔بھارت کی مدد کے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا نیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر بھارت اور مہذب دنیا کو ایک آزاد بلوچستان کی اہمیت کا احساس ہونا چاہئے۔ بھارت ایک آزاد بلوچ ریاست کے بغیر بحری برتری حاصل نہیں کر سکتا۔داعش بلوچستان میں لشکر جھنگوی، لشکر خراسان، لشکر طیبہ، انصار الاسلام کے نام پر موجود ہے۔ ان تمام انتہا پسند مذہبی تنظیموں کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان عناصر کی بلوچ تحریک کا مقابلہ کرنے اور تحریک آزادی سے توجہ ہٹانے کیلئے پرورش کی جارہی ہے اور انہیں پروان چڑھایا جارہا ہے۔ لیکن بلوچ ان انتہا پسندوں کو قوم پرستی کے نظریے کے ذریعے شکست دینے کیلئے پر عزم ہیں۔بین الاقوامی برادی کی کردار کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہے۔ لیکن بین الاقوامی برادری بلوچ قوم کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔
چین گوادر کو بحری اڈے کے طور پر استعمال کررہا ہے، ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
وقتِ اشاعت : February 24 – 2015