ملک میں ایک بار پھر سینٹ کے مڈٹرم انتخابات ہورہے ہیں۔ عوام اس بار سیاسی رہنماؤں کے کرپشن اور ہارس ٹریڈنگ کو دیکھ کر دنگ رہ گئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سیاست کو اثر و رسوخ اور دولت کمانے کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔ یہ کام گزشتہ نصف صدی سے ہوتا آیا ہے۔ پہلی بار ایک غیر سیاسی شخص نے سیاسی پارٹی نہ صرف بنالی بلکہ اس کو بعض علاقوں میں پذیرائی بھی ملی اور اس کے لوگ اسمبلی کے ارکان منتخب ہوگئے چونکہ وہ بذات خود ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں۔ کھلاڑی ہیں اور جب ان پر انکشاف ہوا کہ کرپٹ لوگوں کی کافی تعداد ان کی پارٹی میں بھی موجود ہے جو بضد ہیں کہ وہ اپنا ووٹ ’’اچھے داموں‘‘ فروخت کریں گے۔ ان کو حیرانگی ہوئی اور حکومت کو یہ مشورہ مفت دے ڈالا کہ ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کی روک تھام کے لیے قانونی اور آئینی کارروائی کی جائے۔ مسلم لیگ اور پی پی کا مسئلہ نہیں ہے۔ دونوں پارٹیاں اقتدار میں شریک ہیں اور توقع ہے کہ دونوں پارٹیوں سے متعلق لوگ اپنی پارٹی ڈسپلن کا خیال رکھیں گے اور پارٹی کے نمائندوں کو ہی ووٹ دیں گے۔ سندھ اور پنجاب میں باہر کا کوئی آدمی لاٹری ڈالنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ یعنی ان کے بھاؤ لگانے والے دونوں پارٹیوں کا رخ نہیں کریں گے۔ اگر کریں گے تو میدان میں موجود آزاد اور چھوڑی پارٹیوں کے ارکان کی خرید و فروخت ہوسکتی ہے۔ کے پی کے، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں ووٹ کی زبردست خرید و فروخت جاری ہے۔ کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت ارکان کو لاکھوں روپے پیشگی ادا کئے گئے۔ انتخابات کے دوران باقی رقم ادا کی جائے گی۔ اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے یہ ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ حکمرانوں نے ہی شروع کروائی تھی۔ ووٹ کی خرید و فروخت کو ارکان کے لئے ’’گزارہ الاؤنس‘‘ سمجھا جاتا رہا۔ اس کی حکمرانوں نے دہائیوں پہلے اجازت دی تھی اور آج بھی ہے۔ ایک الیکشن کے دوران دو بار سینٹ کے انتخابات ہوتے ہیں۔ پہلے ابتدا میں اور دوسری بار مڈٹرم یعنی ان کو دوبار کمائی کے ذرائع مہیا کیے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ صوبائی اراکین اسمبلی کی اس کمائی کو ہمیشہ ’’جائز‘‘ قرار دیا گیا۔ کبھی کسی کے خلاف پوری پاکستانی تاریخ میں کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔رہی بات حکومتی پارٹیوں کی، ان کے پاس معاوضہ دینے کے بہت سے اور لامحدود ذرائع ہیں۔ لہٰذا حکومتی پارٹیوں اور ان کے اراکین کو کمائی فکر نہیں ہوتی بلکہ ان کی کمائی یقینی ہوتی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کا سب سے زیادہ فائدہ اراکین بلوچستان اسمبلی کو پہنچا۔ ان کو کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز ملے۔ اور سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے کروڑوں روپے کی اسکیموں کو مافیا اور ٹھیکہ داروں کے ہاتھوں 20سے 25فیصد پر فروخت کردیا۔ اس طرح سے بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے اراکین سالانہ کروڑوں روپے اسکیموں اور ملازمتوں کی فروخت سے کماتے رہے۔ لہٰذا بعض لوگوں نے اپنا سینٹ کا ووٹ فروخت نہیں کیا۔ سینیٹر حضرات نے ازخود ان کو ادائیگی کی۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ نظام سیاست صرف اور صرف نظام تجارت بن کر رہ گئی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے اراکین لاکھوں روپے خرچ کرکے اسمبلی کے رکن منتخب ہوجاتے ہیں اور حکومت ان کو کروڑ پتی بنانے کے ضروری اقدامات کرتی ہے اور ان کو کروڑوں روپے کی اسکیمیں عطا کرتی ہے بلکہ مافیا کو احکامات بھی دیتی ہے کہ ان کی اسکیموں کو اچھے داموں اور اچھی کمیشن کے عوض خریدو۔ اس لئے یہ نظام سیاست نہیں ہے بلکہ یہ نظام تجارت ہے۔ اس لئے اس پر قدغن لگانا آسان نہیں ہوگا ووٹ ہر حال میں بکیں گے اور خریدار خریدیں گے۔ چاہے اس کا نتیجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔
یہ سیاست نہیں، تجارت ہے
وقتِ اشاعت : February 24 – 2015