کراچی کے مہاجر حلقے سے منتخب ہونے والے قومی اسمبلی کے رکن سردار نبیل گبول نے اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔ دوسرے الفاظ میں سردار نبیل گبول نے پارٹی کی یہ نشست جوپارٹی کی امانت تھی واپس لوٹادی۔ تاحال وہ ایم کیو ایم کے رکن ہیں۔ اس سے قبل وہ لیاری سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور وفاق میں ڈپٹی منسٹر بھی رہے۔ ان کے پورے خاندان کا تعلق پی پی سے تھا۔ ان کے چچا عبدالستار گبول 1970ء کے انتخابات میں لیاری سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہ وزیر رہے۔ بھٹو کی حکومت کی برطرفی اور بعد میں پھانسی کے بعد انہوں نے ازخود گمنامی اختیار کی۔ کبھی انہوں نے اس کی وجوہات نہیں بتائیں۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے اکثر قریبی ساتھی ستار گبول، حفیظ پیرزادہ، نواب ممتاز بھٹو ان کا ساتھ چھوڑگئے۔ دوسرے دور یا نئی نسل میں نبیل گبول نے بے نظیر بھٹو کا ساتھ دیا اور لیاری کے سیٹ کے وارث بن گئے۔ اس سے قبل خود ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری لیاری کی نمائندگی کرچکے تھے۔ شاید نبیل گبول اور آصف علی زرداری کے درمیان اختلافات کی بنا پر نبیل گبول نے پارٹی سے نہ صر ف استعفیٰ دیا بلکہ پارٹی کے رہنماؤں پر کچھ الزامات بھی لگائے۔ ان میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ پی پی کی لیڈر شپ نے ان کو قتل کرانے کی کوشش کی۔ وجہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ان کا یہ فیصلہ کم علمی اور موقع پرستی پر مبنی تھا کہ وہ ایم کیو ایم میں شامل ہوجائیں اور گلبرگ کی نمائندگی قومی اسمبلی میں کریں۔ یہ انتہائی کوتاہ چشمی کا مظاہرہ تھا کہ بلوچ سردار اپنے قبائل کا لحاظ کئے بغیر ایم کیو ایم میں صرف اس لئے شامل ہوئے کہ ان کو قومی اسمبلی کی سیٹ چاہئے تھا۔ وہ شاید پی پی کے رہنماؤں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ کسی دوسری پارٹی میں جاکر بھی قومی اسمبلی کی نشست حاصل کرسکتے ہیں۔ پی پی کا یہ فیصلہ خوفناک تھا کہ پارٹی کو جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا جائے۔ جرائم پیشہ افراد یہ فیصلہ کریں کہ لیاری سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کون ہوں۔ اس میں پارٹی کی اعلیٰ ترین لیڈر شپ کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ یا ان کی کوئی رائے شامل نہ ہو۔ آج وہی جرائم پیشہ عناصر ایک ایک کرکے پی پی کے دیرینہ کارکنوں کو قتل کررہے ہیں۔ پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت بے بس ہے۔ مقتدرہ نے اب یہ کام جرائم پیشہ اراد کے سپرد کردیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو لیاری سے نکال کر ٹھکانے لگایا جائے۔ اس کا مکمل طور پر صفایا کیا جائے۔ نبیل گبول نے بھی موقع پرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم میں شامل ہوگئے تھے۔ حالانکہ ایم کیو ایم کے مسلح لوگ سینکڑوں بلوچوں کے قتل عام میں ملوث تھے۔ شہر بھر سے ایم کیو ایم کے مسلح افراد نے ان بلوچوں کو اغواء کیا تھا اور بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانے میں پھینک کر فرار ہوگئے۔ ان میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا حالانکہ سندھ میں پی پی پی کی تاحال حکومت ہے۔ بہر حال نبیل گبول کے پاس کوئی جواز نہیں تھا کہ وہ ایم کیو ایم میں شامل ہوجائیں جن پر سینکڑوں بلوچوں کے قتل کا الزام ہے۔ یہ موقع پرستی کی بدترین مثال ہے۔ نبیل گبول اس بات کے جوابدہ ہیں کہ وہ ایسے پارٹی میں گئے جن کے تمام حلقے کے لوگوں پر نہ صرف سنگین الزامات تھے بلکہ ان کو قاتل تصور کرتے تھے۔ مستقبل میں کیا ہوگا۔ یہ کوئی نہیں جانتا۔ پی پی کا ابھی بھی اثر لیاری میں ہے۔ پی پی پی کے کارکنوں نے جرائم پیشہ افراد کی بالادستی قبول نہیں کی اور اس کی ابھی تک مزاحمت کررہے ہیں۔ شاید وہ اپنے لئے ایک نیا لیڈر تلاش کریں گے۔ نبیل گبول نے ان کے احساسات اور جذبات کو شدید ٹھیس پہنچایا ہے۔
نبیل گبول کا استعفیٰ
وقتِ اشاعت : February 25 – 2015