اخبارات بھرے پڑے ہیں کہ سینٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ہورہی ہے ۔ بعض سیاسی پارٹیاں اس بات پر پریشان ہیں کہ ان کے عوامی نمائندے ’’قابل فروخت ‘‘ ہیں ’ ان کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے کوئی دوسرا ’ بشمول حکومت ان کی مدد کو آئے اور ہارس ٹریڈنگ کو ہر قیمت پر بند کرائے ۔ اس کے لئے آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ بیلٹ باکس کی ’’ حرمت ‘‘ بر قرار نہ رہے اور مخفی ووٹ کا حق عوامی نمائندوں سے صرف اس لئے چھینا جائے کہ اس سے ملک کے بڑے سیاسی رہنماؤں کے وقار اور انا کو نقصان پہنچنے کا احتمال رہتا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق فاٹا میں سینٹ کے ایک ووٹ کی قیمت دس کروڑ روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ بلوچستان میں بھی صورت حال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے ۔ بعض صوبائی اسمبلی کے ارکان کو شکایت یہ ہے کہ ان کو 18ویں ترمیم کی وجہ سے وزیرنہیں بنایا گیا اور اب سینٹ کے الیکشن کے دوران اسمبلی توڑنے کی بات ہورہی ہے۔ ان کا سوال یہ ہے کہ انہوں نے قرضہ لے کر انتخابات جیتے اوراب ان کا قرضہ کس طرح ادا ہوگا۔بلوچستان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کرپشن کا یہ کلچر رائج ہے بعض تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا یہ خیال ہے کہ بلوچستان میں کرپشن کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت آزادی دی گئی ہے تاکہ متوسط طبقہ کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ پارٹیوں کے مقابلے میں الیکشن جیت سکیں ۔ اصولوں کی سیاست کو بلوچستان میں پسند نہیں کیا جاتا ہے ۔ ملک اور انتظامیہ چلانے کے لئے ’’ لوٹا کریسی ‘‘ ایک ضروری عمل ہے حکومت اور مقتدرہ نہ صرف کرپشن کو نظر انداز کریں گے بلکہ ضرورت پڑنے پر اس کی مکمل سرپرستی کریں گے۔ ایوب خان نے اپنے دونوں صدارتی انتخابات میں ووٹ خریدے اور ہر ایک بی ڈی رکن کو تین تین ہزار روپے ادا کیے ۔ ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح ایک ریوڑ کے طورپر بنگلوں میں رکھا گیا ،ان کورقم دے کر سیدھے پولنگ اسٹیشن لے جایا گیا وہاں ووٹ ڈالنے کے بعد ان کورہاکیا گیا ۔ کئی کئی دنوں تک ’’ عوام کے منتخب نمائندے ‘‘ مقتدرہ اور افسروں کے قید میں رہے جن کے لئے قیام و طعام کا شاہانہ بشانہ بندوبست کیا گیا۔ اس طرح جنرل ضیاء ’ جنرل مشرف نے بھی گھوڑوں کی جی بھر کے خریداری کی ۔اس سے قبل ملک غلام محمد، سابق گورنر جنرل سکندر مرزا نے بھی گھوڑوں کی زبردست خریداری کی، ون یونٹ بنایا ، قائداعظم اور لیاقت علی خان کے مسلم لیگ کو توڑا ۔ یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ’’ اختیارات کی تقسیم منصفانہ ‘‘ نظر آرہی ہے ۔ عوامی نمائندوں کو لوٹ مار کرنے کا حق دیا گیا ۔ کرپشن کی بنیاد پر لا وارث اور غریب بلوچ سرکاری ملازم اور چھوٹے افسران بڑی تعداد میں جیل میں ڈالے گئے ۔ جبکہ ملک چلانے کا اختیار کسی اور کے پاس ہے یہ اختیارات کی حقیقی تقسیم کا وہ نمونہ ہے جو آج کل بلوچستان یا ملک کے دوسرے صوبوں میں رائج ہے ۔ کرپشن کے الزامات پر گرفتاریاں اور سزائیں صرف چھوٹے افسران اور ملازمین کے لئے ہے ۔
فوجی حکمرانوں کے دور میں بھی سینٹ کے انتخابات ہوئے جہاں پر صوبائی مارشل لاء انتظامیہ نے امید وار بلکہ عوامی نمائندے نامزد کیے ۔ صوبائی اسمبلی کے اراکین کو بلا کر یہ کہا گیا کہ وہ فلاں کو ووٹ دیں ۔ اس طرح سے گروپ بنائے گئے اور ان تمام اسمبلی کے اراکین کو دھمکیاں بھی دی گئیں کہ اگر انہوں نے احکامات کی خلاف ورزی کی تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس طرح سے بلوچستان کے نمائندوں کا انتخاب حکام بالا نے کیا تھا ،عوام یا سیاسی پارٹیوں نے نہیں ۔
موجودہ صورت حال میں بعض پارٹیاں اس لئے ناخوش ہیں کہ انہوں نے بلند و بانگ دعوے کیے تھے او ران کے نمائندے اب قابل خرید تصور کیے جاتے ہیں ۔ غصہ میں آ کر ایک قومی رہنما ء نے یہ دھمکی دی ہے کہ اگر ہارس ٹریڈنگ ہوئی تو وہ اسمبلی تحلیل کردیں گے ۔یہ نا ممکن نظر آتا ہے وہ کسی بھی صورت میں اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے کیونکہ اسی نظام میں وہ ملک کے وزیراعظم بننے کے خواہش مند ہیں اور انہی نمائندوں کے بل بوتے پر وہ ملک کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔ چند حلقوں کو روپیہ پیسہ کمانے کایہ نادر موقع ہاتھ آیا ہے ، اس لئے وہ اپنا ووٹ ضرور فروخت کریں گے، ان کو موجودہ صورت حال میں اپنی ضروریات پوری کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نظر نہیں آتا ۔
سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ
وقتِ اشاعت : March 4 – 2015