جمعیت علمائے اسلام بلا شبہ پاکستان کی ایک بڑی سیاسی و مذہبی جماعت ہے پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں جمعیت علمائے اسلام کا مؤثر حصہ دار کی حیثیت سے رہی ہے۔ اس جماعت کے دو بڑے ستون بلوچستان اور خیبر پشتونخوا ہیں۔انہی دو ستونوں پر جے یو آئی کھڑی ہے۔ بلوچستان کے اندر زبردست اسٹریٹ پاور رکھتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام اگرکسی کے ساتھ حکومت میں ہو تو اس حکومت کا سہاراہے ۔ اگر باہر ہو تو اس حکومت کیلئے ہمہ وقت پریشانیاں رہتی ہیں ۔ اپنی ترجیحات کے تحت پارلیمانی سیاست کرتی آرہی ہے۔ بلوچستان کی پہلی (1970)اسمبلی سے لیکر2013ء کے انتخابات میں وجود میں آنے والی اسمبلی تک جمعیت ایک اہم پارلیمانی حیثیت کے ساتھ صوبے کے عوام کی نمائندگی کر تی آرہی ہے۔ 1973میں جب سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو نو ماہ بعدہی چلتا کیا گیا تو مولانا مفتی محمود نے سرحد میں وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دیدیا ۔سردار عطاء اللہ مینگل2مئی1972سے13فروری 1973تک وزیراعلیٰ رہے۔دو ماہ بعد جام غلام قادر وزیراعلیٰ بنے۔ غرض صوبے کے اندرتواترکے ساتھ جے یو آئی حکومتوں میں رہی ہے۔ اہم وزارتیں اپنی حکمت عملی اور عوامی حیثیت کے بل بوتے پر لیتی رہی ہے۔2002ء میں جام یوسف کے ساتھ حکومت میں اہم شراکت دار اور2008ء سے2013ء تک نواب اسلم رئیسانی کی حکومت میں گویا جے یو آئی کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل تھی۔ نواب رئیسانی کو جب آخری وقت میں پیپلز پارٹی اور دیگر پارلیمانی اتحادیوں نے تنہاء چھوڑ دیا تو یہ جے یوآئی ہی تھی کہ جس نے آخر تک نواب رئیسانی کا ساتھ دیا۔ ان کے ساتھ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی بھی شانہ بشانہ کھڑی تھی۔ گورنر راج کو سب اتحادیوں نے خوش آمدید کہا لیکن جے یو آئی اور بی این پی عوامی اس زیادتی کے خلاف سینہ تان کر کھڑی ہوئیں اورگورنر راج کی مخالفت کی ۔گورنر راج کے دوران برابر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہوتا رہا جہاں اس آئینی لیکن نا پسندیدہ عمل کا پوسٹ مارٹم اسمبلی کی فلور پر کیا جاتا رہا ۔ باقیوں نے مستقبل کے مفادات کو دیکھنا شروع کردیا۔ان میں کئی افراد موجودہ حکومت میں عیش کررہے ہیں۔ گورنر راج کے نفاذ کی راہ ہموار کرنے میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی دیوار کے پیچھے بیٹھ کر سازش کا حصہ بنی تھیں۔ ہزارہ قبیلے کی میتوں پر ان جماعتوں نے نگاہ اپنے فوائد و اغراض پرمرکوز رکھی تھیں۔ جمعیت علمائے اسلام ف در حقیقت اصولی مؤقف پر ڈٹ گئی تھی۔ ان کا یہ اقدام صوبے کی پارلیمانی روایات میں اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے گا۔ جمعیت علمائے اسلام2013ء کے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی اس کی دیگر وجوہات تو ہیں ہی لیکن ایک بڑی وجہ جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کا 2008میں وجود میں آنا ہے۔ نظریاتی کے رہنماء و کارکن مفتی محمود کے فکری شاگرد ہیں اور مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ نظریاتی کے رہنماؤں نے سیاسی گمنامی اور مٹ جانے کا خوف بالائے طاق رکھا اور اصولی بات پر قائم رہنے کا مشکل فیصلہ کر ڈالا۔ مولانا عصمت اللہ ، حافظ فضل محمد بڑیچ ، مولانا عبدالقادر لونی، مولانا محمد حنیف اور عبدالستار شاہ چشتی جیسے تربیت یافتہ رہنماؤں اور کارکنوں نے انتھک دوڑ دھوپ کرکے ثابت کردیا کہ جمعیت علمائے اسلام ف کے مقابل میں ایک مضبوط فکری نظریاتی جماعت کھڑی کی جاسکتی ہے ۔ اولاًجے یو آئی ف کے وہ اکابر جو اختلاف کورحمت کی بجائے جرم اور بغاوت سمجھتے ہیں یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اختلافی گروہ کچھ ہی دنوں میں خس و خاشاک کی مانند اڑ جائے گا ،لیکن ان کی یہ سوچ غلط ثابت ہوگئی۔ جمعیت علمائے اسلام نظریاتی نے بلوچستان کے اندر اپنی جڑیں کچھ ہی عرصہ میں پیوست کردیں۔ یہ بات پوری دیانت اور بصیرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ جے یو آئی نظریاتی کا شمار اس وقت صوبے کی بڑی اور افرادی قوت والی جماعتوں میں سے ہے۔ 2008کے عام انتخابات میں مولانا عصمت اللہ نے مولانا محمد خان شیرانی کو قومی اسمبلی کے ژوب قلعہ سیف اللہ کے حلقے پر شکست دیدی تھی اور ژوب سے ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیاب ہوئی۔ 2013ء میں جے یو آئی نظریاتی گو کہ قومی و صوبائی اسمبلی کی کسی نشست پر کامیاب تو نہ ہوسکی البتہ جے یو آئی ف کو ناکوں چنے چبوائے ۔ نہ خود جیتے اور نہ جیتنے دیا۔ یہ تقسیم اگر رہی تو مستقبل میں بھی نقصان کا یہی اندیشہ و امکان موجود ہے۔ حافظ فضل محمد بڑیچ وفات پا گئے اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ باقی تمام قائدین اسی عزم اور حوصلے سے نظریاتی کی قیادت و تربیت پر قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جے یو آئی نظریاتی بنی کیوں؟۔ اس کی تفصیل بڑی اور طویل ہے لیکن ہم یہاں اجمالاً تحریر کرنے کی کوشش کریں گے ۔ جمعیت علمائے اسلام کے یہ حضرات جو اب جے یو آئی نظریاتی کی قیادت کررہے ہیں 1988سے جماعتی پالیسیوں اور شخصی فیصلوں پر معترض ہیں۔ مسائل و تحفظات کا جمعیت کی مجلس شوریٰ ، عاملہ و مجلس عمومی کے علاوہ نجی نشست و برخاست میں نشاندہی کرتے رہے۔اس لب کشائی پر مولانا عصمت اللہ کو تو پیچھے ہٹنے پر مجبو ر کردیا گیا ۔ نیز جماعت کے اندر مخالفانہ سوچ پر گویا بندش ہوئی۔1991ء میں خود کو فکری و نظریاتی کارکن کہنے والے ان رہنماؤں نے متوازی پروگرامات کا انعقا د شروع کردیا۔ انہی دنوں جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان نے کوئٹہ میں بیٹھ کر تین دن تک اعتراضات سنے ما بعد بائیس نکات پر مشتمل ایک تحریر فیصلے کی صورت میں مولانامحمد خان شیرانی جو کہ صوبائی امیر تھے کو ارسال کردیاتھا ۔ یہ تحریر بجائے اثر کے ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوا اور معاملات جیسے تھے ویسے ہی چلتے رہے۔ جے یو آئی نظریاتی نے جماعت کے اندر بد عنوانی پر گرفت کرلی تھی سردست ان کا مطالبہ تھا کہ1988سے لیکر وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کا احتساب ہو۔ جمعیت کو اسلامی و اساسی نظریے و فکر سے ہٹایا گیا، اور افغان جہاد بالخصوص طالبان حکومت کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام کا مؤقف مبہم بنایا گیا، اور اس سوچ کو عام کرنے کی سعی کی گئی کہ جیسے جے یو آئی افغان جہاد اور طالبان کی حکومت کی مخالف ہو ۔صوبائی تنظیم کا وطیرہ مرکزی جماعت کو فیصلوں میں نظر انداز کر نے بن گیا ہے، اس تناظر میں مسلکی ہم آہنگی کی خاطر ’’امام‘‘ جیسے پلیٹ فارم کی تشکیل بطور مثال پیش کی گئی ۔ اس جیسے دیگر اعتراضات اور سوالات اٹھائے گئے ،جس پر کان دھرا نہیں جا تا تھا ۔ اور نتیجتاً جمعیت علمائے اسلام نظریاتی بن گئی۔ مولانا شیرانی امیر کی بجائے ایک آمر کی صورت میں جلوہ افروزرہے۔ کئی مخلص و سرکردہ کارکن و رہنماء گوشہ نشین ہوگئے۔ مولانا عصمت اللہ انہی میں سے تھے حتیٰ کہ حافظ حسین احمد دس سال تک جمعیت علمائے اسلام سے گویا خارج کردیئے گئے تھے۔ مولانا نور محمد جیسا درویش صفت عالم و رہنماء رنجیدہ دل و خفا تھے ۔ اسی دوران ان کا انتقال ہوا۔ وہ دو بار صوبائی وزیر اور ایک بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ مولانا شیرانی ، ملا محمد عمر کی حکومت کے مخالف تھے اس کے بر عکس ایران میں مذہبی حکومت کو سراہتے ہیں، لیکن افغانستان کے اندر ایسی حکومت کو نا پسند کرتے ہیں۔ دنیاوی و مادی سوچ او رطرز سیاست کے قائل ہیں۔ پیرانی سالی کے با وجود عہدہ و منصب کے خوگر ہیں ۔غرض جمعیت علمائے اسلام کے ان دو دھڑوں کے درمیان انضمام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ جے یو آئی نظریاتی کے امیر مولانا عصمت اللہ کا ایک بیان26فروری2015ء کے اخبارات میں چھپا جس میں انہوں نے پیشرفت کا اقرار کیا ہے۔ ساتھ الفاظ یہ بھی تھے کہ اگر اصولی مؤقف تسلیم کیا گیا تو انضمام ہوجائے گا۔‘‘جہاں تک میری معلومات ہیں ایک مصالحتی جرگہ مولانا عبدلستار شاہ کی سربراہی میں مفاہمت و انضمام کی تگ و دو کررہی ہے، اس جرگے میں مولانا حافظ حسین احمد شرودی ، مفتی روزی خان اور چند اور جمعیت علمائے اسلام کے خیر خواہ علماء شامل ہیں، جن کی جے یو آئی نظریاتی کے قائد ین کے ساتھ نشست بھی ہوچکی ہے اور نظریاتی نے اس زیل میں شرائط تحریراً پیش کردیئے ہیں۔ تاہم جے یو آئی ف اور جے یو آئی ن میں براہ راست بات چیت اب تک نہیں ہوئی ہے ۔ میری معلومات یہ بھی ہیں کہ سلسلہ بات چیت و مذاکرات کو آگے بڑھانے کی غرض سے جمعیت (ف) پیشگی ایک کمیٹی رکن قومی اسمبلی مولانا امیر زمان کی سربراہی میں قائم کرچکی ہے ،جس کی معاونت رکن بلوچستان اسمبلی حاجی گل محمد دمڑ ، سابق اسپیکر سید مطیع اللہ آغا و دیگر کریں گے۔ چنانچہ اس تناظر میں جمعیت علمائے اسلام نظریاتی کی مذاکراتی کمیٹی جے یو آئی نظریاتی کے رہنماء حاجی کمال شاہ کی قیادت میں بن چکی ہے ۔ ان کے ساتھ جے یو آئی نظریاتی کے صوبائی امیر مولانا عبدالقادر لونی ، مولانا صلاح الدین،مولانا محمد حنیف اور صوبہ خیبر پشتونخوا کے مولانا زبیر البازئی کمیٹی میں شامل ہیں۔ اصولی طور پر اس عمل میں اس قدر تاخیر نہیں ہونی چاہیئے تھی ۔ شاید اس راہ میں مولانا محمد خان شیرانی کا رویہ رکاوٹ تھا ،لیکن مولانا فضل الرحمان کو بحیثیت امیر بہر حال تندہی دکھانی چاہیے تھی تاکہ جمعیت انتشار و افتراق سے دو چار نہ ہوتی۔ مولانا فضل الرحمان کی کیا بات کی جائے وہ تو خوددس سال تک حافظ حسین سے متعلق آنکھیں بند کئے ہوئے تھے۔ صفحہ اول کا رہنما ء اتنے سال نظر انداز تھا اورانہیں اس کی پرواہ ہی نہ تھی۔ بہر کیف جمعیت نظریاتی سے انضمام اور ان کے تحفظا ت دور کئے جاتے ہیں توجمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے اندر قوت اختیارکرے گی۔جہاں جہاں جمعیت کو نقصان اٹھانا پڑا ہے ،وہاں پوزیشن مستحکم ہوگی۔ کوئٹہ میں جمعیت علمائے اسلام ف کا صفایا ہوچکا ہے انضمام کے بعد سابقہ پوزیشن کی بحالی کے قوی امکانات ہیں۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ’’معروف ‘‘کی دعوت اور’’ منکر‘‘ سے روکنا ہی در اصل ایک دینی و مذہبی جماعت کا فرض و مقصد ہو تا ہے ۔