اسلام آباد /کراچی/پشاور: سینٹ کی 52 نشستوں کیلئے (آج) جمعرات کو انتخابات کی تمام تیاریاں مکمل‘ بیلٹ پیپرز کی پریذائیڈنگ افسران کو فراہمی کیلئے انتظامات کرلئے گئے‘ چاروں صوبوں ‘ فاٹا اور وفاقی دارالحکومت کی مجموعی طور پر 52 نشستوں پر 130 امیدوار میدان میں ہیں‘ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہارس ٹریڈنگ روکنے کی کوششوں کی ناکامی ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ووٹوں کی خرید و فروخت اپنے عروج پر پہنچ گئی‘ سندھ میں تمام نشستوں پر بلا مقابلہ انتخاب کی کوششیں ناکام ہوگئیں‘فاٹا میں چھ ارکان قومی اسمبلی نے اپنے اپنے رشتے داروں کو سینیٹر بنوانے کے لئے ایکا کرلیا جس سے دو بھائیوں اور دو کزنز کی کامیابی یقینی ہوگئی‘ وزیراعظم نواز شریف دورہ سعودی عرب کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کے دو سینیٹرز کو ووٹ نہیں دے سکیں گے‘ امیر جماعت اسلامی سراج الحق خود کو ووٹ دینے والے واحد امیدوار ہیں‘ الیکشن کمیشن نے خفیہ رائے شماری کو یقینی بنانے کے لئے ارکان اسمبلی پر ووٹ ڈالتے ہوئے اپنے ساتھ موبائل فون ‘ کیمرہ سمیت الیکٹرانک ڈیوائس لانے پر پابندی عائد کردی‘ اس پابندی کے توڑ کیلئے ووٹ ڈالے جانے کا ثبوت لانے کیلئے ووٹ فروخت کرنے والے ارکان کو خریداروں نے کیمرے والے پین ‘ گھڑیاں ‘ بٹن فراہم کردیئے تاکہ وہ ثبوت فراہم کرکے اپنے بقایا وصول کرسکیں‘ وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی طرف سے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری‘ فاٹا کی چار اور اسلام آباد کی دو نشستوں کیلئے قومی اسمبلی جبکہ چاروں صوبوں سے سینٹ امیدواروں کے انتخاب کے لئے صوبائی اسمبلیوں کو پولنگ سٹیشن قرار دیا جاچکا ہے‘زیراعظم نواز شریف نے سینٹ انتخابات میں ایم این ایز کی رہنمائی کے لئے کمیٹیاں قائم کردیں‘ کمیٹیاں ڈویژن سطح پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی رہنمائی کریں گی۔ سینٹ الیکشن کی تیاریوں کی تفصیلات کے مطابق پرنٹنگ کارپوریشن نے چار ہزار بیلٹ پیپرز چھپوائے ہیں‘ جنرل نشستوں کے لئے سفید‘ خواتین کیلئے گلابی رنگ کے بیلٹ پیپرز سینٹ انتخابات میں استعمال ہونگے علماء اور ٹیکنو کریٹس کے لئے ہلکا سبز اور اقلیتوں کے لئے پیلے رنگ کے بیلٹ پیپرز استعمال ہونگے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک اور عبدالطیف انصاری کو مشکلات درپیش ہیں جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے چار ووٹ انتہائی اہمیت اختیار کرگئے۔ اب جنرل سات نشستوں کے لئے آٹھ امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے عبدالرحمن ملک‘ سلیم ایچ مانڈوی والا ‘ اسلام الدین شیخ‘ عبداللطیف انصاری‘ انجینئر گیان چند‘ متحدہ قومی موومنٹ کے میاں محمد عتیق شیخ‘ خوش بخت شجاعت اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے امام الدین شوقین شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے حلقوں میں عبدالرحمن ملک اور عبداللطیف انصاری کو کمزور امیدوار قرار دیا جارہا ہے اور اصل مقابلہ عبدالرحمن ملک ‘ عبداللطیف انصاری اور امام الدین شوقین کے درمیان قرار دیا جارہا ہے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے صوبائی صدر اور وفاقی وزیر پیر صدر الدین شاہ راشدی تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے امیدوار کے حق میں راضی کرنے کے لئے کئی روز سے کوشاں ہیں تاہم ابھی کوئی مثبت جواب نہیں ملا تاہم مسلم لیگ (ف) کے ذرائع کے دعوے کے مطابق قوی امید ہے کہ تحریک انصاف ہمارے امیدوار کی حمایت کرے گی ۔ سندھ میں ایک جنرل نشست کے لئے 20.88 ووٹ درکار ہیں ٹیکنو کریٹس اور خواتین کی نشستوں پر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے امیدوار پہلے ہی بلا مقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں۔پنجاب میں (ن) لیگ کی تمام گیارہ نشستوں پر کامیابی یقینی نظر آتی ہے تاہم پیپلز پارٹی کی طرف سے ندیم افضل چن کی کامیابی کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے (ن) لیگی ارکان کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے جن کے بارے میں ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ پارٹی قیادت کی طرف سے سینٹ کے لئے امیدواروں کے انتخاب میں جنوبی پنجاب کو نظر انداز کرنے پر ناراض ہیں۔ (ن) لیگ کے ناراض سینیٹر سابق گورنر ذوالفقار کھوسہ کا دعویٰ ہے کہ 82 (ن) لیگی ارکان پنجاب اسمبلی پارٹی قیادت سے ناراض ہیں اور وہ پارٹی امیدواروں کو ووٹ نہیں دینگے۔ دریں اثناء پیپلز پارٹی کے پنجاب سے سینیٹ کے امیدوار ندیم افضل چن ، خواتین سیٹ کی امیدوار مسز ثروت ملک اور ٹیکنوکریٹس کی نشست کیلئے ملک نوشیر لنگڑیال نے الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے کہ ہمارے ووٹرز اراکین اسمبلی کو حکومت کی طرف سے دھمکیاں دے کر ان سے زبردستی ووٹ لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو سینٹ انتخابات میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے تاہم وزیراعظم خود سعودی فرمانروا کی دعوت پر سعودی عرب چلے گئے جس وجہ سے وہ وفاقی دارالحکومت سے (ن) لیگ کے دو امیدواروں کو ووٹ نہیں دے سکیں گے۔ خیبر پختونخواہ سے سینٹ کے امیدوار سراج الحق جو کہ صوبائی اسمبلی کے رکن بھی ہیں واحد امیدوار ہیں جو رکن اسمبلی کے طور پر خود کو بھی ووٹ دینگے۔ دریں اثناء بلوچستان میں سینٹ کی 12نشستوں پر انتخاب آج ہوگا ، آٹھ امیدوار دستبردار ہوگئے ، چوبیس امیدوار میدان میں رہ گئے۔ مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کو اندرونی اختلافات اور آزاد امیدوارو ں کے باعث مشکلات درپیش ہیں۔بلوچستان میں سینیٹ انتخابات کیلئے پولنگ بلوچستان اسمبلی کی عمارت میں صبح 9بجے سے شام 5بجے تک بغیر کسی وقفے جاری رہے گی۔ صوبائی الیکشن کمشنر پریزائیڈنگ افسرسلطان بایزید ہوں گے۔ سینیٹ انتخابا ت کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں ۔ پولیس اور ایف سی کے ایک ہزار سے زائد اہلکار سیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔تمام مہمانوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کے نمائندوں کیلئے جاری کئے گئے کارڈ بھی منسوخ کردیئے گئے۔ اراکین اسمبلی کے ساتھ نجی محافظوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ بلوچستان میں سینیٹ کی بارہ نشستوں ہیں جن میں جنرل کی سات ، ٹیکنوکریٹ کی دو ، خواتین کی دو اور اقلیت کی ایک نشست ہے۔ 65اراکین اسمبلی حق رائے دہی استعمال کریں گے ۔ الیکشن کمیشن کے مطابق بیلٹ پیپرز پہنچادیئے گئے ہیں ۔ ہر ممبر کو چار بیلٹ پیپرز دیئے جائیں گے جس کے ذریعے وہ جنرلٍ، ٹیکنوکریٹ ، خواتین اور اقلیت کی نشست پر امیدواروں کے لئے ووٹ کا استعمال کریں گے۔جنرل کیلئے سفید، ٹیکنوکریٹ کیلئے سبز، خواتین کیلئے گلابی اور اقلیت کیلئے پیلے رنگ کے بیلٹ پیپر استعمال کئے جائیں گے۔الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتوں میں موجود ہمارے ذرائع کے مطابق سینیٹ انتخاب کیلئے بتیس میں سے مزید آٹھ امیدوار مقابلے سے دستبردار ہوگئے جس کے بعد چوبیس امیدوار میدان میں رہ گئے۔دستبردار ہونے والوں میں نیشنل پارٹی کے پانچ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اورمسلم لیگ ن کے ایک ایک جبکہ آزاد امیدوار شامل ہیں۔ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر یاسین بلوچ جنرل اور ٹیکنو کریٹ دونوں نشستوں پر ، نیشنل پارٹی کے میر کبیر احمد محمد شہی جنرل نشست پر دستبردا رہوگئے تاہم میر کبیر احمد ٹیکنوکریٹ کی نشست پر بدستور امیدوار ہوں گے۔ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر مناف ترین نیشنل پارٹی کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہوگئے۔ خواتین کی نشست پر نیشنل پارٹی کی طاہرہ خورشید پشتونخوا میپ کے گل بشرہ کے حق میں دستبردا ہوگئیں ۔ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر نیشنل پارٹی کے امیدوار مختیار احمد چھلگری بھی انتخابی دوڑ سے دستبردار ہوگئے۔جنرل نشست کے امیدوار مسلم لیگ ن کے امیر افضل خان مندوخیل بھی دستبردار ہوگیا۔ الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق سات جنرل نشست پر اب گیارہ امیدواروں میں مقابلہ ہوگا جس میں مسلم لیگ ن کے نعمت اللہ زہری، سردار یعقوب ناصر، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمد عثمان کاکڑ، سردار اعظم موسیٰ خیل، جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری ، نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو ، بی این پی کے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ، آزاد امیدوار یوسف بادینی اور احمد خان کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔آزاد امیداور حسین اسلام اور اسلم بلیدی بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ جبکہ ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر نیشنل پارٹی کے میر کبیر محمد شہی، مسلم لیگ ن کے آغا شہباز درانی کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں ۔جے یو آئی کے ملک سکندر اور آزاد امیدوار انجینئر بسنت لال گلشن بھی ٹیکنوکریٹ کی نشست پر مقابلے کیلئے میدان میں موجود ہیں۔خواتین کی دو نشستوں پر پانچ امیدواروں میں مقابلہ ہیں جن میں مسلم لیگ ن کی کلثوم پروین، آزاد امیدوار ثناء جمالی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی گل بشرہ کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔ جے یو آئی کی نسرین کھیتران اور رابعہ یاسمین بھی مقابلے میں شریک ہیں۔ اقلیت کی ایک نشست پر مسلم لیگ ن کے دنیش کمار ، نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر اشوک کمار اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی روشن خورشید بروچہ کے درمیان اصل مقابلہ ہوگا ۔ جے یو آئی کے ہیمن داس بھی اقلیت کی نشست سے انتخاب لڑرہے ہیں۔ 65رکنی ایوان میں سینیٹ کی ایک جنرل نشست پر امیدوار کوکامیابی کیلئے 9ووٹ در کار ہوں گے ۔بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی سب سے زیادہ بائیس نشستیں ہیں جبکہ اسے ق لیگ کے چار اراکین اورمجلس وحدت مسلمین کے ایک رکن کی حمایت بھی حاصل ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی دیگر معاملات کی طرح سینیٹ انتخابات میں بھی حقیقی اتحادی کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں چودہ جبکہ نیشنل پارٹی کے گیارہ اراکین ہیں۔ اس طرح دونوں جماعتوں کے مشترکہ طور پر 25ووٹ ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) آٹھ اراکین کے ساتھ ایوان میں چوتھی بڑی جماعت ہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی( مینگل) کے دو اراکین ہیں ۔ انہیں انتخابی عمل میں عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے ایک ایک رکن کے علاوہ ایک آزاد رکن طارق مگسی کی حمایت بھی حاصل ہیں۔ ذرائع کے مطابق نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے جنرل، ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی نشست پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے جبکہ مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان بھی سینیٹ انتخابات میں اتحاد ہوا ہے۔ ن لیگ سے تعلق رکھنے والے اسپیکر جان محمد جمالی کی جانب سے آزاد حیثیت سے خواتین کی نشست پر امیدوار اپنی بیٹی ثناء جمالی کو دستبردار نہ کرانے پر ن لیگ کو اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ ن لیگ کے رہنماء تمام تر کوششوں کے باوجود ثناء جمالی کو ن لیگ کی امیدوار کلثوم پروین کے حق میں دستبردار نہ کراسکے۔ پانچ نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ ق کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا گیا اور وہ اس انتخابی دوڑ میں اپنی اتحادی ن لیگ کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہیں تاہم ق لیگ اور ن لیگ کے بعض اراکین کا جھکاؤ آزاد امیدوار وں کی طرف ہیں۔ اقلیت کی نشست پر نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے درمیان اختلافات کے باعث ن لیگ کے دنیش کمار کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں ۔ جنرل نشست پر آزاد امیدوار وں کو جے یو آئی ، مسلم لیگ ن اور ق لیگ کے بعض اراکین کی حمایت حاصل ہیں جس کی وجہ سے ان جماعتوں کو مشکلات درپیش ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑے سرمایہ کے مالک دوآزاد امیدوار وں نے جے یو آئی ، ن لیگ اور ق کے بعض ارکین کے ساتھ معاملات طے کرلئے ہیں جس کی وجہ سے جے یو آئی کومولانا عبدالغفور حیدری کی نشست اور مسلم لیگ ن کو جنرل نشستوں کی دو میں سے ایک نشست سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں۔