جان کیری’ امریکی وزیرخارجہ اور وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور دونوں نے الگ الگ سعودی بادشاہ سے ملاقاتیں کیں اور خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا ۔ گمان ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے سعودی فرمانروا کو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات پر بنیادی معلومات فراہم کیں ۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کے قریب ہے اور اس نے سعودی عرب کو اس معاملے میں اعتماد میں لیا ہے ۔ دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب کے دو طرفہ اور باہمی تعلقات ہیں حال ہی میں سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی مالی امداد دی تھی تاکہ پاکستان معاشی طورپر مستحکم ہو ۔ سعودی عرب کیلئے سب سے بڑی پریشانی ایران کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور فوجی قوت ہے ۔ حال ہی میں ایران کے حمایتی شیعہ ہوتی ملیشیاء نے دارالحکومت پر نہ صرف قبضہ کر لیا بلکہ صدر اور وزیراعظم کو معزول کردیا اور دونوں کو جیل میں ڈال دیا ۔ ایران کی موجودگی کا زبردست احساس لبنان ’ شام ’ عراق ’ یمن ’ بحرین اور گلف کے دوسرے ملکوں میں صاف نظر آرہا ہے کہ ایران اس خطے میں ایک بڑھتی ہوئی سیاسی ’ معاشی اور فوجی قوت ہے جس کو بین الاقوامی برادری نظر انداز نہیں کر سکتی ۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سعودی عرب کے پاکستان سے کیا توقعات ہیں ۔ بہر حال ایران کا مقابلہ کرنے کیلئے سعودی عرب کو دو بڑے مسلم ممالک پاکستان اور ترقی میں سے کسی کی فوجی حمایت کی ضرورت ہوگی سعودی عرب کسی قسم کے کردار کا اس خطے میں متمنی ہے کہ جو پاکستان ادا کرے ۔ ظاہر ہے سعودی عرب پاکستان سے امداد طلب کریگا اور یہ توقع رکھے گا کہ پاکستان اس خطے میں سعودی پالیسی کی حمایت کرے۔ جب کبھی بھی پاکستانی وزیراعظم سعودی عرب کے سرکاری یا غیر سرکاری دورے پر روانہ ہوتے ہیں تو ایران کی جانب سے تیز و تند بیانات نظر آتے ہیں اور سعودی عرب سے قربت اختیار کرنے پر ایرانی رہنماء اپنی ناراضگی کااظہار کرتے ہیں ۔ ایران ہمارا قریب ترین ہمسایہ ہے ۔ بلوچستان کے دو صوبوں میں ایک ایران کے پاس اور دوسرا پاکستان کے پاس ہے ۔ ایران سے تعلقات میں کسی بھی قسم کی کشیدگی میں سب سے زیادہ نقصان بلوچوں کا ہوتا ہے ۔ پنجاب ایران سے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔اس کو کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہیں ہے ۔آئے دن ایرانی افواج ’ معمولی تلخی کے بعد بلوچستان کے پاکستانی حصہ پر گولہ باری اور راکٹ باری کرتے ہیں ۔ کبھی کبھار اس کے مسلح افواج پاکستان کے علاقوں میں دور تک آتے ہیں ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ جب کبھی بھی پاکستان اور سعودی عرب میں قربت بڑھتی ہے تو برق بچارے بلوچوں پر گرتی ہے ۔ لہذا دونوں ممالک کے درمیان میں ایک توازن قائم کیا جائے اور پاکستان کسی تیسرے ملک کی پراکسی نہ بنے ۔ ایران اورامریکا کے تعلقات میں کسی بھی وقت تلخی یا بد گمانی پیدا ہوسکتی ہے ایسی صورت حال میں امریکی بحری بیڑہ ساحل مکران پر موجود ہے ۔جو یہاں کارروائی کرسکتا ہے جس سے نقصان بلوچوں کو پہنچے گا ۔ ساحل مکران جو تین ہزار کلو میٹر طویل ہے جو آبنائے ہرمز سے شروع ہو کر کراچی پر ختم ہوتا ہے یہاں پر امریکی بحری بیڑہ لنگر انداز ہے ۔ جو عام الفاظ میں گلف آف اومان کہلاتا ہے ۔ اس لئے حکومت پاکستان کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ پڑوسی ملک یا امریکا سے تعلقات میں بگاڑ نہ آئے اور ہم کسی کی بھی ’’ پراکسی ‘‘ نہ بنیں ۔ ہمارے تعلقات سعودی عرب اور ایران سے خوشگوار اور دوستانہ رہنے چاہئیں ۔ اس خطے میں بدلتی ہوئی صورت حال پاکستان کا کردار زیادہ اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ خصوصاً افغانستان میں امن کی بحالی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات ’ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت زیادہ اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے اور خطے میں پائیدار امن کا تعلق بھی اس جنگ کے جیتنے پر ہے جس سے پاکستان ’ افغانستان اور وسط ایشیاء میں دیر پا امن قائم ہوسکتا ہے ۔ محدود مفادات سے ہٹ کر پاکستان کو ایک بین الاقوامی کردار ادا کرنا چائیے جو بھارت کبھی اور کسی صورت میں ادا نہیں کر سکتا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان کے دورہ سعودی عرب کی وجہ سے ایران میں کسی قسم کی غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چائیے ۔
خطے کی بدلتی صورت حال
وقتِ اشاعت : March 6 – 2015