حالیہ سیاسی بحران نے ثابت کردیا ہے کہ ملک میں سیاسی اور انتخابی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے ۔ سیاسی رہنماء ملک میں جاری بحران کا حل نہیں نکال سکے اور حکومتوں نے فوجی عدالتوں کے پس پشت پناہ لے رکھی ہے ۔ شاید فوجی عدالتوں اور ان کے ممکنہ فیصلوں کے بعد حالات معمول پر آجائیں ۔ تاہم حکمران اس بات پر تیار نظر نہیں آتے کہ ملک کے اندر سیاسی اور انتخابی اصلاحات کی جائیں ’ ہماری حکومت قائم ہے اس لئے سب اچھا ہے اور ملک میں کوئی معاشی اور سیاسی بحران نہیں ہے ۔ یہ حکمرانوں کی سوچ اور بحرانوں سے متعلق ان کا رویہ ہے کہ وہ کسی قسم کے اقدامات اٹھانے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ سینٹ کے انتخابات سے صرف چند گھنٹے قبل حکومت کو ایک آرڈیننس جاری کرنا پڑا جس میں فاٹا کے قومی اسمبلی کے ممبران کے لئے ’’ون مین ‘‘ ون ووٹ‘‘ کو دوبارہ رائج کیاگیا شاید قانون میں تبدیلی کا مقصد ظاہراً مسلم لیگ کے ایک سینیٹر کو فاٹا سے منتخب کروانا تھا بلکہ ان چھ قومی اسمبلی کے ممبران کے گروپ کی اجارہ داری کوتوڑنا بھی شامل تھا جو گروپ کی صورت میں تمام چاروں نشستوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے یہ ایک بھونڈی کوشش تھی جو حکومت نے کی اور فاٹا کے انتخابات ملتوی ہوگئے۔ اس سے قبل عمران خان نیازی ایک بڑے خوف میں مبتلا تھے کہ ان کی پارٹی میں بڑے پیمانے پر بغاوت ہوگئی ہے ۔ درجن بھر سے زائد صوبائی اسمبلی کے ارکان نے فارورڈ بلاک بنادیا تھا ،ن لیگ کی حکومت اس کی مدد کو آئی اور دونوں نے مل کر جمہوریت اور جمہوری طرز عمل کا جنازہ نکال دیا ۔اراکین کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ بیلٹ پیپر پولنگ بوتھ سے باہر لے جائیں اور وہاں مرضی کے نمائندوں کے حق میں ووٹ ڈالیں اس طرح سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی ملی بھگت سے خفیہ رائے شماری کا بنیادی حق چھین لیا گیا۔ بیلٹ باکس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور جمہوریت یا ہارس ٹریڈنگ کے بہانے جمہوری قدروں کو پامال کیا۔ یہ سب کچھ ان سیاسی رہنما ء اور رہبروں کی نگرانی میں ہوا جو جمہوری حقدار کے ٹھیکے دار سمجھے جاتے ہیں ۔ اس سے قبل اپنی ساکھ کو مٹی میں ملتا دیکھ کر عمران خان نیازی نے مطالبہ کردیا کہ راتوں رات آئین میں ترمیم لائی جائے اور آئین سے خفیہ رائے شماری کا حق اراکین اسمبلی سے نہ صرف چھین لیا جائے بلکہ ان پر بے ایمانی اور کرپشن کے الزامات لگائے جائیں کہ وہ ہارس ٹریڈنگ یا ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں ۔ بعض پارٹیوں نے راتوں رات آئین میں ترمیم کے مطالبے کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ یہ مطالبہ کیا کہ ملک میں آئینی ’ سیاسی اور انتخابی اصلاحات نافذ کیں جائیں تاکہ جمہوری عمل مستحکم ہو ۔
بعض سیاسی مبصرین کا یہ یقین ہے کہ صرف 1970کے عام انتخابات صاف اور شفاف ہوئے تھے جس کے نتیجے میں عوامی لیگ ملک کی سب سے بڑی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔ اس نے بنگال سے 169نشستوں میں سے 167نشستیں حاصل کیں اور نیپ یا نیشنل عوامی پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں سردار عطاء اللہ مینگل کی سربراہی میں دو تہائی اکثریت حاصل کی ۔اس کے بعد تمام انتخابات میں کم یا زیادہ دھاندلی ہوئی اور دھاندلی حکمرانوں نے صرف اپنے ناجائز مفادات کے تحفظ کیلئے کیں ۔ 1985ء کے غیر سیاسی انتخابات میں میونسپل کونسلر اور سابقہ بی ڈی کے ممبران کو پاکستان کا قومی رہنماء بنا دیا گیا ۔ آج کل کے حکمران انہی1985ء کے انتخابات کے پیداوار ہیں اور ملک پر اسی طرز کی حکمرانی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ بلوچستان جیسے علاقوں میں ساری سازشیں سیاسی پارٹیوں کے خلاف ہوتی ہیں۔ حکمرانوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل کے طرز پر کوئی وزیراعلیٰ دو تہائی اکثریت حاصل نہ کرے، اس کے لئے متوسط طبقے سے لوگوں کو بلا کر اور ان کو وسائل فراہم کرکے ان کو ذاتی حیثیت سے صوبائی اسمبلی کا رکن بنایا جاتا ہے اوریہی افراد حکومت بناتے ہیں، توڑتے ہیں، حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں تاکہ اچھی حکمرانی کا تاثر لوگوں میں نہ ابھرے ۔
سیاسی اور انتخابی اصلاحات کی ضرورت
وقتِ اشاعت : March 7 – 2015