|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2015

پاکستان کا اصل مسئلہ غیر جمہوری مرکزیت ہے۔ مقتدر قوتیں ’ سیاستدان ’ سیاسی پارٹیاں اور افسر شاہی سب کے سب پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اوراصولوں کے نہ صرف خلاف ہیں بلکہ اس کے خلاف کام بھی کررہے ہیں ۔ پاکستان کا قیام چند افراد کی نعرہ بازی سے وجود میں نہیں آیا ۔ پانچ صوبوں مشرقی بنگال ، سندھ، پنجاب ،کے پی کے اور بلوچستان نے جمہوری اور رضا کارانہ بنیاد پر پاکستان کے وفاق کو تشکیل دیا تھا اور اپنے اختیارات اور کچھ وسائل پاکستان کی وفاقی حکومت کے حوالے کیے تھے کہ نئے پاکستان کے جمہوری نظام کو چلایا جائے ۔ آج حالات اس حد تک خراب کیے گئے ہیں کہ بعض لوگ سندھ جو ایک وفاقی اکائی ہے کو اعلانیہ طورپر تقسیم کرنے کی بات کررہے ہیں ۔ ایک سازش کے تحت سندھ اور بلوچستان میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی گئیں تاکہ سندھی اوربلوچ اپنے ہی وطن میں اقلیت بن جائیں تاکہ پاکستان میں مرکزیت کو مزید تقویت دی جائے ۔پاکستان کی ریاست اپنے ساتھ زمین کا کوئی ٹکڑا ساتھ نہیں لایا تھا یہ زمینیں صوبوں نے وفاق کو ریاست کاکاروبار چلانے کے لئے دیں تھیں، ان کو نیلام کرنے اور پیسہ جمع کرنے کے لئے نہیں۔ جس زمین کی ریاست پاکستان کوضرورت نہیں ،ان کو دوبارہ صوبوں کو واپس کیا جائے نہ کہ ان کو نیلام کیا جائے یا ملک کے طاقتور عناصر کو تحفہ میں دیا جائے ۔ یہ سارا کام غیر قانونی اور غیر آئینی ہے ۔اسی طرح سرائیکی ’ پوٹھو ہاری ’ گلگتی لوگ اپنی آباؤ اجداد کی سرزمین پر رہتے ہیں۔ ان کو صوبے کا درجہ دیا جائے ۔ بہاولپور کی بحالی کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے کہ بہاولپور ریاست کومخصوص مفادات کے پیش نظر بحال کیا جائے اور سرائیکی بولنے والوں کو بنیادی قومی حقوق سے محروم کیا جائے ۔اسی طرح فاٹا اور بلوچستان کے شمالی علاقوں کو پشتون صوبے کے اندر نہیں رکھنا بھی زیادتی ہے ۔ موجودہ پاکستان کے وفاقی نظام میں بھی پشتونوں کا ایک ہی صوبہ بننا چائیے ۔ فاٹا اور بلوچستان میں افغانستان کے مفتوحہ علاقوں کو بھی پشتون صوبے میں شامل کیاجائے ۔پشتونوں کی پاکستانی سینٹ سے صرف ایک جگہ سے نمائندگی ہو اور تین علاقوں سے نہ ہو ۔ اب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ فاٹا میں انتخابات کے الگ قوانین ہیں اور حکومت نے راتوں رات ان کو تبدیل کردیا ۔ساتھ ہی یہ الزام کہ وہاں ووٹوں کی خرید و فروخت کو بند کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے صوبائی حدود کی حد بندی دوبارہ کی جائے ۔ڈیرہ غازی خان اور اس کے ملحقہ علاقوں ’ جیکب آباد بشمول کشمور اور کندھ کوٹ کوبلوچستان میں شامل کیاجائے ۔ غیر جمہوری مرکز کی جانب سے یہ کوشش ہوتی رہی ہے سندھ اور بلوچستان میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کیاجائے ۔بلوچوں اور سندھیوں کو اپنے وطن میں اقلیت میں تبدیل کیاجائے ۔ سندھ میں پورے پاکستان سے آبادی کے ا نخلاء کا رخ گزشتہ ساٹھ سالوں سے جاری ہے اوربلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں افغانوں کا یلغار جاری ہے ۔ پورے پاکستان میں افغانوں کو ملک سے نکالنے کی کارروائی جاری ہے ۔ حال ہی میں کے پی کے سے 37ہزار افغانوں بشمول مہاجرین کوملک بدر کردیا گیامگر بلوچستان میں ابھی تک اس کارروائی کا آغاز نہیں کیا گیا ۔ سندھ کا ارادہ ہے کہ 27لاکھ افغانوں کو سندھ سے نکالا جائے گا۔ اس کا باقاعدہ اعلان سندھ حکومت نے کیا ۔ وفاقی وزیر جنرل (ر) قادر بلوچ نے بھی اعلان کیا کہ سندھ سے سب افغان واپس جائیں گے۔ حکومت اور سرکاری اہلکاروں نے ابھی تک بلوچستان سے متعلق اپنے منصوبے کا اعلان نہیں کیا ۔ صوبائی حکومت مصلحت کے تحت خاموش ہے، صرف بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے دباؤ مسلسل جاری ہے کہ پہلے تمام افغانوں خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن کو پہلے افغانستان بھیجا جائے اور بعد میں بلوچستان میں مردم شماری کی جائے۔ لاکھوں افغانوں اور غیر ملکیوں کی موجودگی میں مردم شماری کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔اور موجودہ نیشنل پارٹی کی حکومت یہ امر دھیان میں رکھے کہ یہ ذمہ داری صرف بی این پی کی نہیں ہے ،اس کی بھی ہے اور چائیے کہ وہ اس ایشو پر تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر سوچے۔ صوبے اور بلوچ عوام کے مفاد کو دھیان میں رکھے، حکومت کسی کی سدا نہیں رہتی، عمل اور عوامی مفاد میں اٹھائے گئے اقدامات تاریخ میں زندہ رہتی ہیں اور تاریخ شاید یہ سنہرا موقع ہمیں دوبارہ نہ دے۔