|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2015

تربت میں رونما ہونے والے واقع ٖجس میں دو نوجوان مبینہ طور پر پولیس حراست میں ہلاک ہوگئے تھے ان کی ہلاکت پر تربت میں سیاسی پارٹیوں کے رد عمل کے بعد کل ڈی آئی جی پولیس بلوچستان سید معظم شاہ ہنگامی طور پر تربت پہنچ گئے ہیں اور وہ اس وقت تربت میں موجود ہیں۔ کل موصوف نے واقع کے حوالے سے ایک پریس بریفنگ دی اور واقع کی تحقیقات کے پہلے مرحلے میں میں صحافیوں کو بریفنگ دی ، انہوں نے بریفنگ کے دوران بتایاکہ واقع کی اہم کڑیوں سے انکوائری کے دوران ایڈشنل ایس ایچ او نور بخش اور اس کی ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ واقع میں ہلاک ہونے والے د و نوجوان صدام اور نا صر کو گزشتہ شب ایس ایچ او نور بخش نے گرفتار کیا تھا اور اس کے قبضے سے بقول ایس ایچ او ایک ٹی ٹی پسٹل ، ایک چوری شدہ موٹر سائیکل اور چوری شدہ موبائل فونز برامد کیے تھے ، ڈی آئی جی نے بتایا کہ ایڈیشنل ایس ایچ او نور بخش نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ملزمان کو پہلے پولیس تھانہ لے گیا تھا وہاں ان سے پوچھ گچھ کی تھی اس کے بعد وہ انہیں ڈی پی او کے گیٹ کے پاس چھوڑ گئے تھے انہوں نے بتایا کہ ایس ایچ او نور بخش یہ بھی اعتراف کر چکا ہے کہ انہوں نے ملزمان کو نہ ڈی پی او کے حوالے کیا تھا اور نا ہی ڈی پی او کو اس کی اطلاع دی اس کے بعد جب صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ دونوں ملزمان مردہ حالت میں ڈی پی او کے گھر دروازے پر موجود تھے ، ڈی آئی جی نے بتایا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی توسط سے اعلیٰ عدالت کو درخوست دین گے کہ واقع کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے انہوں نے بتایا کہ گرفتاری جن پولیس اہلکاروں نے عمل میں لائی تھی ان کا یہ بھی فرض بنتا تھا کہ وہ ملزمان کی تفتیش سے پہلے ان کی ایف آئی آر کرتے اور اس کے بعد دوسرے مراحل پر جاتے مگر ان دو ملزمان جن کے قبضے سے بقول ایس ایچ او نور بخش اسلحہ اور دیگر چوری شدہ سامان برامد ہوئے تھے ان کے خلاف کسی قسم کی ایف آر نہیں کی ہے جو کہ ان کی نا اہلی کی غمازی کرتی ہے انہوں نے بتایا کہ موصوف پولیس افسر کہ دوسری بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے بغیر کسی پوسٹ مارٹم کے دونوں نعشوں کو ان کے لواحقین کے حوالے کیا اور انہیں لے جا کر دفن کیا گیا اور ان نعشوں کو دفنانے کے بعد کیس مذید پیچیدہ ہوگیا ہے انہوں نے بتایا کہ اگر عدالتی تحقیقات کے دوران عدالتی حکم پر ضروری ہوا تو نعشوں کو دوبارہ قبر سے نکال کر ان کی پوسٹ مارٹم کی جائے گی ، انہوں نے بتایا کہ واقع سے پولیس کی ساکھ کو نقصان سے بچانے کے لیے مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کریں گے اور اس عمل میں پولیس ڈٖیپارٹمنٹ کی پہلی کوشش یہی ہوگی کہ مقتولین کے لواحقین کو فوری انصاف ملے اوراس عمل کی آبیاری اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے اور مقتولین چاہے جو بھی تھے مگر دوران حراست ان کی ہلاکت افسوسناک عمل تھا جس میں ملوث پولیس افسران کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر دم لیں گے ، انہوں نے بتایا کہ کیچ کی سیاسی پارٹیاں امن اور آشتی کا مظاہرہ کریں اور پولیس کی انکوائری پر بھروسہ کریں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ڈی پی او کو معطل کرنے کا اختیار فیڈرل دیپارٹمنٹ کے پاس ہے لہٰذا انہیں معطل نہیں کر سکتے ہیں البتہ ڈی پی او شامل تفتیش رہیں گے اگر وہ واقع اس میں ملوث پائے گئے تو ان کے خلاف کسی بھی قسم کی تعدیبی کاروائی عمل میں لائیں گے انہوں نے بتایا کہ تربت پولیس تھانے کے ایس ایچ او صبح نعشوں کو اٹھا کر ہسپتال منتقل کرنے کی بجائے روزنامچہ اٹھا کر سارا دن غائب رہا جو ایک ایک بہت بڑی قانونی کوتائی ہے جس کی تحقیقات بھی کی جائے گی۔