|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2015

حکومت پاکستان نے مہاجرین اور افغان غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے پر ایک مضبوط اور جائز موقف اپنایا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن ’ خصوصاًافغانستان سے آنے والوں کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی اور افغان مہاجرین جو اقوام متحدہ کے نظام کے تحت رجسٹرڈ ہیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا اور ان سب کو عزت اور احترام کے ساتھ ان کے وطن واپس روانہ کیا جائے گا۔ مگر ان کے پاکستان کے اندر رہنے کی تاریخ میں کسی قسم کی توسیع نہیں کیجائے گی او ران سب کو اس سال کے آخر تک وطن واپس جانا ہوگا۔ اس کے بعد قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا جائیگا اور ان سب کو غیر قانونی تارکین وطن تصور کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان کا یہ موقف اس وقت سامنے آیا جب افغان وزیر برائے مہاجرین جناب بلخی کی سربراہی میں ایک وفد نے پاکستانی رہنماؤں اور افسروں سے گورنر ہاؤس پشاور میں ملاقات کی ۔ پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ ، کے پی کے، کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک اور افسران نے کی جبکہ گورنر کے پی کے نے اجلاس کی صدارت کی ۔ افغان وزیر نے یہ خواہش ظاہر کی کہ افغان مہاجرین اور تارکین وطن کی تاریخ واپسی میں مزید توسیع کی جائے تاکہ حکومت افغانستان کے لئے مشکلات نہ ہوں ۔ ان کے مؤقف کو پاکستانی حکام نے تسلیم نہ کیا اور واضح الفاظ میں افغان وفد کو بتا دیا گیا کہ اقوام متحدہ سے معاہدے کے بعد افغان مہاجرین کی واپسی کی تاریخ میں مزید توسیع نہیں ہوگی ۔ تمام رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو 31دسمبر 2015ء سے پہلے پاکستان سے ہر حال میں واپس جانا ہوگا ۔ دوسری جانب غیر قانونی افغان تارکین وطن سے کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی ۔ وہ غیر قانونی طورپر سرحد وں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں ان کے پاس پاکستان میں رہنے کے قانونی کاغذات اور جواز موجود نہیں ہے وہ سب کے سب جرم کے مرتکب ہوئے ہیں ان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہوگی ۔ قانون اپنا راستہ خود تلاش کرے گا۔ اکثر غیر قانونی افغان تارکین وطن پاکستان میں معاشی وجوہات کی بنا پر موجود ہیں اور وہ ’’ معاشی مہاجر‘‘ ہیں ۔ مقامی لوگوں کے حقوق تلف کرنے کے بعد یہاں پر روزگار کے ذرائع پر ان کا قبضہ ہوگیا ہے جو موجودمعاشی صورت حال میں ملکی معیشت پر بوجھ ہیں۔ اکثر افسران اور مبصرین کی یہ حتمی رائے ہے کہ افغان مہاجر اور غیر قانونی تارکین وطن دونوں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض گروہوں کا کمانڈر اور کنٹرول ابھی تک افغانستان میں ہے ۔ بہت سے پاکستانی دہشت گرد افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں جس کو پاکستان کی حکومت اور عوام مزید برداشت نہیں کر سکتے ۔ لہذا ان کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ تمام افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو جلد سے جلد افغانستان بھیجا جائے تاکہ پاکستان مزید نقصانات برداشت نہ کرے ۔ ملک کے اندر صورت حال کو بھی مزید بہتر بنانا ہوگا اس کے لیے افغان غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف ملک بھر میں کارروائی ایک ساتھ شروع کی جائے ۔ کے پی کے حکومت نے 16دسمبر کے واقعہ کے بعد افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی شروع کی ہے ۔ اس کے نتیجے میں تیس ہزار سے زائد افغان پشاور چھوڑ کر افغانستان واپس جا چکے ہیں یہ تعداد صرف ماہ فروری کی ہے ۔ اس طرح سے سندھ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ سندھ سے 27لاکھ افغانوں بشمول غیر قانونی تارکین وطن کو کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں سے نکالیں گے۔ ابھی تک حکومت بلوچستان خاموش ہے جہاں کے بلوچ عوام ان مہاجرین سے سب سے زیادہ زخم خوردہ ہیں۔ پہلے صوبائی انتظامیہ ایک آدھ کارروائی کیا کرتی تھی جب سے 16دسمبر کا واقعہ پیش آیا ہے اور اس میں افغان دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں لیکن اس کے باوجود باقی صوبوں کے برعکس بلوچستان میں افغانوں کے خلاف کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی ہے ۔ بلوچستان حکومت بھی غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بھرپور کارروائی کرے ۔ ان کو گرفتار کرے ان کو عدالتوں سے سزائیں دلوائیں اور بعد میں ان کو افغانستان بدر کردیا جائے۔ اس مسئلے پر سیاسی مصلحت سے کام نہ لیا جائے۔کیونکہ افغان مہاجرین صوبے کی معیشت پر زبردست بوجھ ہیں ان کو ملازمت کرنے اور روزگار حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے وہ معاشی مہاجر ہیں انکو مقامی لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جانی چائیے ۔ ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا صرف یہ مطلب لیا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی ۔ اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم یہ رسک لے سکتے ہیں؟