|

وقتِ اشاعت :   March 13 – 2015

ریاستی اداروں نے آخر کار یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے کہ کراچی کے حالات کو بہر حال قابو میں لاناہے اور مسلح افراد کے خلاف کارروائی کرنا ہے جو کراچی میں امن وامان کو خراب کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ متحدہ کے سیاسی ہیڈ کوارٹر پر اس وقت چھاپہ مارا گیا جب وہاں سے مصدقہ اطلاعات حاصل ہوئیں کہ وہاں پر جدید اور بھاری تعداد میں اسلحہ کے علاوہ دہشت گرد’ ٹارگٹ کلرز اور سزا یافتہ قاتل موجود ہیں ۔ اس چھاپے کے بعد ہی سب کچھ ثابت بھی ہوگیا ورنہ رینجرز اور دوسرے سیکورٹی ادارے اس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مارا جائے ۔ تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ الطاف حسین متحدہ کے سربراہ نے اس کو تسلیم کیا اور شکوہ بھی کیا کہ اگر مقامی رہنماؤں کو قاتل اور قتل کے سزا یافتہ مجرمان رکھنے تھے تو سیاسی پارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں نہیں رکھتے، کہیں اور رکھتے ۔البتہ اسلحہ سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ رینجرز نے یہ اسلحہ کمبل میں چھپا کر متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں پلانٹ کیے ۔ جبکہ سینیٹر بابر غوری کا کہنا تھا کہ یہ اسلحہ قانونی ہے اور لائسنس یافتہ ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں یہ اسلحہ سیاسی پارٹی کے ہیڈ کوارٹر ز میں کیوں رکھا گیا ہے؟ اس کا کوئی جواب نہیں آیا ۔ تاہم رینجرز کے افسران اور اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ یہ وہی اسلحہ ہے جو ناٹو کی گاڑیوں میں افغانستان لے جاتے ہوئے لوٹ لیا گیا تھا ۔ تمام ضبط شدہ اسلحہ کی درآمد نہیں ہوئی ۔ جدید اسلحہ ملک کے اندر لانے اور فروخت کرنے پر پابندی ہے ۔تاہم تفتیش کے بعد اصل حقائق سامنے آئیں گے کہ یہ اسلحہ کس نے متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں رکھا تھا اور کس کے خلاف استعمال کرنا تھا ۔یہ اتنا جدید اسلحہ ہے کہ اس کوملک کے عام شہریوں کو مارنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ گمان ہے کہ اس کو ملک کی سلامتی اور ریاست کے خلاف استعمال ہوناتھا ۔تاہم تحقیقات جاری ہیں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف یہ الزامات اکثر وبیشتر لگتے رہتے ہیں کہ اس قسم کا اسلحہ خود رکھتے ہیں اور پھر خودہی برآمد کرتے ہیں تاکہ رائے عامہ کو متاثر کیا جا سکے ۔ تاہم ریاستی اداروں اور متحدہ کے درمیان کشمکش جاری ہے اور متحدہ کو اپنے وجود کے لئے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ ’ بھتہ خوری اور دوسرے جرائم میں ملوث نہیں ہے اور اس کے کسی مسلح ونگ کا بھی وجود نہیں ہے ۔ تیس سالوں بعد ریاستی ادارے دوسری بار متحدہ کے خلاف کارروائی کررہے ہیں کیونکہ ان کے پاس بعض شواہد ہیں کہ متحدہ نے کراچی کے لوگوں کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنایا ہوا ہے ۔ اتنے سالوں اور سینکڑوں واقعات کے بعد ریاستی ادارے کارروائی کررہے ہیں ۔ ملک کے تمام سیکورٹی ادارے اس معاملے میں ہم خیال معلوم ہوتے ہیں کہ اگر کراچی میں دائمی امن قائم کرنا ہے تو بھتہ خوری ، دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ متحدہ کے عسکری ونگ کا نہ صرف خاتمہ ضروری ہے بلکہ متحدہ سیاسی اصولوں کی پاسداری کرے اور گن پوائنٹ پر سیاست نہ کرے ۔ یہ عین ممکن ہے کہ ذمہ دار کارکنان اور متحدہ کے رہنماء ان تمام کارروائیوں سے علیحدگی کا اعلان کریں۔ متحدہ کے دونوں بازؤں ’ عسکری ونگ اور سیاسی ونگ میں بہت جلد فرق واضح ہوجائے گا۔ کراچی آپریشن کا حتمی مقصد بھی یہی نظر آتا ہے کہ کراچی سے عسکری سیاست کا جلد سے جلد خاتمہ کیاجائے ۔ اس میں ٹارگٹ واضح انداز میں ابھر کر آئے ہیں ۔ایک لیاری کے گینگ وار میں ملوث جرائم پیشہ افراد جن کو ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سربراہی میں سیاسی شکل دینے کی کوشش کی گئی اور دوسرا گروہ متحدہ ہے ۔ ریاستی اداروں اور سیکورٹی افواج کی اکثر جھڑپیں ان کے خلاف ہیں اور کارروائی بھی ان کے علاقوں میں ہورہی ہیں ۔ لیاری گینگ وار سے متعلق سینکڑوں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ متحدہ کا دعویٰ ہے کہ ان کے تیس سے چالیس کارکن جھڑپوں میں مارے گئے ۔ بہر حال اس بار کسی سیاسی مصالحت کا امکان نہیں ہے ۔ سب سے پہلے گورنر سندھ کو جانا ہوگا۔ چاہے وہ متحدہ سے الگ ہی نہ کیوں ہوجائیں، اس کے بھی آثار ہیں کہ حکومت پاکستان ، برطانیہ کی بھرپور انداز میں مدد کرے تاکہ الطاف حسین کے خلاف ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا الزام ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور کراچی سے بھتہ کی بڑی رقم جن لوگوں نے روانہ کی ہے وہ بھی الطاف حسین اور متحدہ کے خلاف مجموعی ثبوت فراہم کریں تاکہ الطاف حسین کے رہبری کا معاملہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے ۔