|

وقتِ اشاعت :   March 15 – 2015

آئے دن ملک کے مختلف علاقوں سے قتل و غارت گری کی خبریں آرہی ہیں جس سے ملک کے اندر کشیدہ صورت حال میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے ۔ کچھ دنوں سے خصوصاً بھارت کے اس اعلان کے بعد کہ بھارتی فارن سیکرٹری پاکستان کا دورہ کریں گے اس کے بعد سرحدوں پر فائرنگ اور بمباری بہت حد تک کم ہوگئی اور نہ ہونے کے برابر ہے ۔ لیکن ملک کے اندر ‘ تیراہ وادی ‘ بگٹی قبائلی علاقوں ‘ پنجاب ‘ سندھ اور کراچی سے تشدد کے واقعات کی پریشان کن خبریں آرہی ہیں ۔ فاٹا اور کے پی کے کی صورت میں کسی حد تک بہتری نظر آرہی ہے شاید اس وجہ سے دہشت گردی سے متاثرہ لوگوں کو دوبارہ اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی گئی ہے ۔ہفتہ بھر میں آئی ڈی پیز اپنے گھر شمالی وزیرستان واپس جانا شروع ہوں گے۔ بلوچستان کی صورت حال میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آیا کیونکہ مزاحمت کاروں اور سیکورٹی افواج کا ایک دوسرے سے سامنا نہیں ہورہا ہے اس طرح سے بلوچستان میں ایک Stale Mate کی صورت حال ہے ۔ کم سے کم مزاحمت کاروں اور سیکورٹی افواج خصوصاً ایف سی سے دو بدو جنگ نہیں ہورہی ہے ۔البتہ کراچی کی صورت حال ایک سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے ۔ متحدہ اور ریاستی اداروں کے درمیان موقف زیادہ سخت ہوتا نظر آرہا ہے ۔ اس بار شاید متحدہ کا براہ راست مقابلہ رینجرز یا سیکورٹی افواج سے ہوگا ۔ یہ تمام کارروائیاں سیکورٹی افواج کررہی ہیں اور اس میں عام شہری حکومت کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آتا۔ پہلے دو دنوں تک وزیراعلیٰ سندھ بالکل خاموش تھے ۔ سیاسی وجوہات کی بناء پر آصف علی زرداری نے رینجرز کی کارروائی کی مذمت کی ۔ لیکن کل وزیراعلیٰ نے زبان کھولی اور رینجرز کے کارروائی کی حمایت کرکے حکومت سندھ کی پوزیشن واضح کردی ہے کہ وہ اس آپریشن کا حمایتی ہے اور مخالف نہیں ہے ۔ دوسری جانب متحدہ کے وکیل رینجرز پر الزامات لگا رہے ہیں کہ وہ متحدہ کے گرفتار کارکنان اور ملزمان سے ’’ جنگی قیدیوں ‘‘ والا سلوک کررہے ہیں ۔ جو سلوک جنگ کے دوران دشمن کے افواج کے ساتھ گرفتاری کے بعد ہوتا ہے وہی سلوک متحدہ کے کارکنوں اورملزمان کے ساتھ ٹی وی کیمرہ کے سامنے کیا جارہا ہے ۔ بعض مبصرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیکورٹی افواج کا رویہ متحدہ اور اس کے کارکنوں کے ساتھ زیادہ سخت ہوسکتا ہے اگر متحدہ نے کسی طرح سے اس کاروائی کے خلاف مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ سیکورٹی ذرائع کی یہ کوشش ہوگی کہ حکومت برطانیہ کی بھرپور مدد کی جائے تاکہ عمران فاروق کے قتل کی سزا الطاف حسین کو ضرور ملے ۔دوسرا مقدمہ منی لانڈرنگ کا ہے ۔ کراچی کے سیٹھ اور ساہو کاروں پر عنقریب یہ دباؤ آئے گا کہ اس مقدمہ کو بھی برطانوی حکام کے مرضی کے مطابق ثابت کریں ۔ یہ ابھی تک معلوم نہ ہو سکا کہ عوام الناس کا کراچی میں رد عمل کیا ہوگا جو بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ حیدر آباد ‘ میر پور خاص ‘ سکھر اور سندھ کے دوسر ے شہروں کے مہاجروں کے مفادات مختلف ہیں وہ طویل مدت تک الطاف حسین اور اس کی سیاست کی حمایت نہیں کرسکتے ۔ ان کو مقامی لوگوں کے ساتھ رہنا ہے اس لیے وہ بہت جلد ہی اپنا رویہ تبدیل کردیں گے۔ کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے اس سے متعلق معلومات بہت کم ہیں اکثر لوگ ایک دوسرے کو نہیں جانتے لہذا یہ اندازہ لگانا حکومتی اداروں کے لئے مشکل ہوگا ۔عام لوگ کس طرح اپنے لا ئحہ عمل کا اظہار کریں گے ۔ دہشت گردی‘ سیکورٹی فورسز کے لئے مشکلات صرف کراچی میں ہی سامنے آسکتے ہیں ۔ دوسرے شہروں میں ایسے مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا ۔ غیر یقینی صورت حال میں سیکورٹی افواج کیلئے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا کہ وہ طاقت کا بھر پور استعمال کریں ۔ کراچی کے معاملات طاقت کے مظاہرے کے بعد امن کے ساتھ چلائے جائیں اور اگر کچھ عناصر نے شر پسندی کی کوشش کی تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور اس کا بالکل خیال نہیں رکھا جائے گا کہ اس کا رد عمل کیا ہوگا ۔ متحدہ کی جو بھی مزاحمت ہوگی وہ کراچی کے بعض علاقوں تک محدود رہے گی ۔ پورٹ ‘ ائیر پورٹ کراچی کے تجارتی مراکز سخت نگرانی میں کام کرتے رہیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ اکا و دکا واقعات ہوتے رہیں گے۔