|

وقتِ اشاعت :   March 17 – 2015

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے یہ اشارے دئیے ہیں کہ عنقریب ایران سے جوہری معاملات پر معاہدہ ہوجائے گا۔ ابتدائی اطلاعات یہ ہیں کہ جوہری معاہدہ بیس مارچ تک متوقع ہے ۔ اگرا س میں زیادہ تیز رفتاری سے پیش رفت نہیں ہوئی تو جون کے آخر تک یہ معاہدہ ضرور ہوجائے گا۔ شاید اسی وجہ سے جان کیری کو مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنا پڑا ۔ مصر میں ایک کانفرنس میں شرکت کے علاوہ انہوں نے سعودی عرب کا بھی دورہ کیا اور نئے سعودی بادشاہ کو اعتماد میں لیا کہ دنیا کی چھ بڑی طاقتیں ایران سے جوہری معاملات پر معاہدہ کرنے والی ہیں جس سے سعودی عرب اور خطے کے عرب ممالک میں کسی قسم کی ہیجانی کیفیت پیدا نہیں ہونی چائیے ۔امریکا اور اس کے دوست ممالک اپنے تمام اتحادیوں کے جائز مفادات کا تحفظ ضرورکریں گے اور ایران کو کسی قسم کی مہم جوئی سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان معاہدے کی اطلاعات کے بعد پاکستان نے سعودی عرب سے زیادہ قربت حاصل کرنے کی کوششیں ترک کردی ہیں ۔ بلکہ وزیراعظم پاکستان نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جس میں دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ پاکستان کی حکومت نے اس بات سے معذوری ظاہر کی کہ وہ اپنی افواج سعودی سلطنت کی حفاظت کے لئے روانہ کرے ۔ خصوصاً یمن کے دارالخلافہ صنعا پر شیعہ ہوتی ملیشیا کے قبضے کے بعد سعودی عرب کو یمن کی طرف سے زیادہ خدشات لاحق ہوگئے ہیں ۔ سعودی عرب کی ایک بڑی فوج کا دستہ عراق کے ساتھ سرحدوں کی نگرانی کررہا ہے تاکہ عراق کی خانہ جنگی سعودی عرب تک نہ پہنچ جائے ۔ سعودی عرب مخالف افواج کو ملک کے اندر آنے سے روکا جائے ۔ بہر حال حکومت پاکستان نے عراق اور یمن کے سرحدوں پر پاکستانی افواج کو روانہ کرنے سے انکار کیا ہے ۔ دوسری جانب پاکستان کی مسلح افواج ملک کے اندر سیکورٹی کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے دور دراز علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ خصوصاً فاٹا اور بھارت کے سرحدوں پر موجود ہیں جہاں پر وہ ملکی سرحدوں کا دفاع کررہے ہیں ۔ موجودہ صورت حال میں پاکستان کی افواج اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائے گا اور بعد میں بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے گا یا دوستوں کی مدد کرے گا۔ موجودہ صورت حال میں پاکستان کا کردار غیر جانبدارانہ رہے گا وہ ایرانی خطرات کے پیش نظر سعودی عرب کی فوجی مدد کرنے سے قاصر ہے ۔ ایران پاکستان کا نزدیک ترین دوست اور ہمسایہ ہے ۔پاکستان ایران کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت کے ساتھ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں ایران نے پاکستان کے سرحدوں کی پاسداری کی اور 2002ء میں بھارت سے مقابلے کی صورت میں بھی ایران نے اپنی سرحدوں کو محفوظ کر لیا تھا ۔ اس جانب سے پاکستان کو خطرات لاحق نہیں تھے ورنہ ایران بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتا تھا بلکہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستانی جہازوں نے زہدان میں پناہ لی تھی ۔ ایران نے جنگ کے دوران پاکستان کو تیل کی ترسیل کو جاری رکھا ان تمام باتوں کے پس منظر میں یہ توقع رکھنا کہ پاکستان ایران ‘ عرب کشمکش میں سعودی عرب کے مفادات کی نگرانی کرے گا یہ حقائق کے منافی ہوگا۔ بہر حال پوری دنیا میں یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ اگر ایران کو جوہری قوت بننے کی اجازت دے دی گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ سعودی عرب ‘ عرب امارات اور دوسرے عرب ممالک جوہری قوت نہ بن جائیں۔ اسی معاہدے کے بعد خطے کے ممالک میں جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی دوڑ شروع ہوگی ۔ اس میں پاکستان پر شدید دباؤ بڑھ جائے گا کہ عرب ممالک پاکستان سے امداد طلب کریں اور جوہری صلاحیت حاصل کریں ۔ یہ پاکستان کیلئے ایک مشکل ترین وقت ہوگا، اگر پاکستان انکار کرے گا تو عرب ملک ناراض ہوجائیں گے اور عرب دنیا سے پاکستانیوں کو بے دخل کردیں گے ۔ دوسری صورت میں پوری عالمی برادری پاکستان کے خلاف متحد ہوجائے گی اور پاکستان پر اقتصادی اور دوسری پابندیاں لگا جاسکتی ہیں ۔یہ نیا مشکل دور پاکستان کے لئے جلد شروع ہونے والا ہے ۔ بہر حال امریکا اور دنیا کے طاقتور ممالک ایران کے اس مطالبے کو تسلیم کررہے ہیں کہ ایران کوپر امن مقاصد کیلئے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی اجازت ہوگی ۔ اس کا اعلان دنوں میں متوقع ہے ۔