|

وقتِ اشاعت :   March 18 – 2015

دو خودکش بمباروں نے عیسائیوں کے دوچرچوں پر حملہ کیا جس میں 16افراد ہلاک اور 70سے زائد زخمی ہوئے ۔پشاور کے بعد لاہور میں چرچوں پر طالبان کا یہ دوسرا حملہ تھا ۔ پشاور کے سکول حملے میں 150سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ طالبان کے ایک گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔ لاہور کے دو چرچوں پر خودکش حملوں کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کرکے اپنی موجودگی کا دوبارہ ثبوت فراہم کیا کہ وزیرستان میں ان کے کمانڈ اور کنٹرول کی تباہی کے بعد بھی ان کا دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم ہے اور یہ نیٹ ورک جہاں چاہے وہاں حملہ کرنے کی ہنوز صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایک حیران کن بات ہے کہ اتنی بڑی اور زبردست کارروائی کے بعد طالبان نے بڑے بڑے حملے کیے، ان میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر خودکش حملہ بھی شامل ہے جہاں پر 150سے زائد طلباء اور اہلکار ہلاک ہوئے ۔یہ حملے ہمارے سیکورٹی پلان میں کمزوری کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ تاہم یہ توقع ہے کہ سیکورٹی کے ادارے طالبان سے خودکش اور دوسرے حملے کرنے کی صلاحیت چھین لیں گے ان کے نیٹ ورک اور بچے کچے کمانڈ اور کنٹرول کے نظام کو مکمل تباہ کردیں گے جس کے لئے عوام کو مزید تعاون کرنا پڑے گا ۔ سول سوسائٹی کو دہشت گردوں پر نگاہ رکھنا پڑے گا اور ضرورت پڑنے پر اطلاعات متعلقہ حکام تک پہنچانا پڑے گاتاکہ طالبان اور ان سے منسلک دہشت گرد مزید انسانی زندگیوں سے نہ کھیل سکیں ۔ دہشت گردی کی وجہ سے ملک بھر میں نقصانات کم سے کم ہوں ۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت افغانستان نے پاکستان سے ملحقہ علاقوں میں فوجی آپریشن شروع کررکھا ہے اور اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ خصوصاً سرحدی صوبوں میں روزانہ درجن دہشت گردوں کا صفایا کیا جارہا ہے ۔ اور ان سے حملہ کرنے کی صلاحیت چھینی جارہی ہے ۔حال ہی میں داعش کا ایک بڑا کمانڈر ہلمند کے علاقے میں مارا گیا ۔ کچھ دنوں بعد ان کا دوسرا ساتھی کمانڈر بھی مارا گیا اس خطے میں طالبان نے کئی ایک خودکش حملے بھی کیے جس سے پانچ ہلاک اور چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ تاہم افغان نیشنل آرمی اور پولیس کی مسلسل کارروائیوں کے بعد علاقے میں امن کے قیام کے امکانات زیادہ روشن ہوگئے ہیں دوسری جانب پاکستانی افواج نے خیبر ون آپریشن مکمل کر لیا اور پوری پاکستان ‘ افغانستان شاہراہ پر امن آمد و رفت کے لئے کھول دی ہے اور پورے خطے میں سیکورٹی کے بہتر انتظامات کیے ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں چوری ‘ رہزنی ‘ ڈاکے ‘ اغواء برائے تاوان اور لوٹ مار کے واقعات بھی کم ہوئے ہیں ۔ پشاور کے قریب باڑہ کا علاقہ اب زیادہ محفوظ بن گیا ہے ۔ اس کا سہرا پاکستان کے سیکورٹی افواج کے سر ہے جنہوں نے قربانیاں دے کر خطے میں لوگوں کوامن کا تحفہ دیا ہے اور طالبان اور ان کے اتحادی جنگجوؤں کو علاقہ بدر کردیا ہے ۔ اب سیکورٹی اداروں کو شہری علاقوں ‘ خصوصاً پشاور ‘ راولپنڈی ‘ لاہور ‘ اسلام آباد ‘ کراچی اور کوئٹہ جیسے شہروں پر توجہ دینی چائیے اور ان شہروں میں سیکورٹی کی صورت حال کو مزید بہتر بنانا چائیے ۔ ان تمام عناصر پر کڑی نگاہ رکھی جائے جو طالبان کے اتحادی ہیں یا وہ جو طالبان سے ہمدردی رکھتے ہیں طالبان اپنی نقل و عمل کو چھپانے کے لئے اکثر دینی مدارس کو استعمال کرتے ہیں ۔ اکثر رپورٹس میں یہ بھی نشان دہی کی گئی تھی کہ دہشت گردوں نے دینی مدارس کے ہاسٹل کو استعمال کیا ۔ ان تمام ہاسٹل پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور منتظمین پر یہ واضح کیا جائے کہ کوئی دہشت گرد ان کی طرف رخ نہ کرے اور یہاں دہشت گردی سے پہلے یا بعد میں پناہ لینے کی کوشش نہ کرے ۔ اگر منتظمین کی جانب سے کوتاہی کی اطلاعات موصول ہوئیں تو ان کو بھی دہشت گردی کے مقدمات کا نہ صرف سامنا کرنا پڑے گا بلکہ ان کو عبرت ناک سزائیں بھی ملیں گی ۔ دوسرا عنصر افغان مہاجر اور غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو اکثر دہشت گردوں کو سہولیات فراہم کرتے ہیں ۔ پناہ دیتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان کے وطن واپسی کے پروگرام میں کوئی توسیع نہیں ہونی چائیے ۔ ہر قیمت پر غیر قانونی تارکین کو واپس افغانستان فوری طورپر بھیجا جائے اور افغان مہاجرین کو 31دسمبر 2015ء سے پہلے وطن روانہ کیا جائے ۔