|

وقتِ اشاعت :   March 21 – 2015

وزیر داخلہ نے برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات کی اور شکایت کی کہ الطاف حسین برطانیہ میں اپنی موجودگی کا غلط استعمال کررہے ہیں ۔ اس سے پہلے الطاف حسین کے مخالفین یہ الزامات لگاتے تھے کہ وہ برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں تشدد کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وزیر کا کہنا تھا کہ الطاف نے برطانوی شہریت اختیار کی ہے ۔ اس لئے برطانوی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شہری کو روکے کہ وہ پاکستان کے اندر تشدد کا پر چار نہ کریں ۔ اسی وجہ سے سندھ رینجرز کے ایک افسر نے ان کے خلاف قتل کی دھمکی دینے کا مقدمہ بھی درج کروالیا ۔ دوسری جانب حالات نے ایک اور کروٹ بدلی ۔ دہرے قتل کے مجرم صولت مرزا نے یہ انکشاف کیا کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے شاید حامد اور اس کے ملازم کو الطاف حسین کے احکامات پر قتل کیا ۔ یہ احکامات انہوں نے فون پر بابر غوری ‘سابق وفاقی وزیر کے گھر پر دئیے تھے افسوسناک انکشاف یہ ہے کہ مملکت پاکستان کا ایک مرکزی وزیر ملک کے اچھے اور اعلیٰ ترین افسر کو قتل کروانے میں برابر کا شریک ہے ۔ صولت مرزا نے حیدر عباس رضوی اور دوسرے رہنماؤں پر بھی اسی قسم کے الزامات لگائے اور دعویٰ کیا کہ متحدہ کے کسی بھی رکن یا رہنما کو پذیرائی ملی اس کو قتل کروایا گیا یا اس کو راستے سے ہٹادیا گیا ۔ انہوں نے عظیم طارق اور مصفطیٰ کمال کی مثالیں بھی دیں ۔ ان انکشافات کے بعد حکومت نے صولت مرزا کی پھانسی 72 گھنٹوں کے لئے روک دی اور ایک سرکاری ٹیم تشکیل دی کہ ان الزامات کی تفتیش کرے ۔ گمان ہے کہ حکومت ان انکشاف کے بعد متحدہ کے رہنماؤں بشمول الطاف حسین کے خلاف زیادہ سخت اور سنجیدہ کاروائی کرے گا۔ الطاف حسین چونکہ برطانیہ میں سیاسی پناہ میں ہیں پاکستان کی حکومت برطانوی حکام سے رابطہ کررہی ہے کہ متحدہ کے رہنماء کے خلاف برطانیہ میں ہی کارروائی کرے ۔ ان کے خلاف اپنے قریب ترین ساتھی عمران فاروق کو قتل کروانے اورمنی لانڈرنگ کے مقدمات ہیں ۔پاکستان کی حکومت ان دونوں مقدمات میں حکومت برطانیہ سے نہ صرف تعاون کرے گی بلکہ معاونت بھی کرے گی ۔ پاکستان میں موجود دو قاتلوں کو کسی بھی وقت حکومت برطانیہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے تاکہ الطاف حسین پر اپنے ہی ساتھی کو قتل کرنے کاالزام ثابت کرنے کے لیے ثبو ت فراہم کیے جائیں۔ جن لوگوں نے الطاف حسین کی منی لانڈرنگ میں مدد کی وہ بھی ان کے خلاف گواہی دینے کو تیارہیں جب کبھی دونوں حکومتوں کے درمیان تعاون کا فیصلہ ہوا ،اسی دن سے الطاف حسین کے خلاف حکومت برطانیہ کارروائی کر سکتی ہے۔ اس سے قبل حکومت پاکستان ملک کے اندر ہی زبردست کارروائی کرنے کا ارادہ ظاہر کررہی ہے جس میں متحدہ کے سیاسی رہنماؤں کے خلاف شواہد جمع کیے جارہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی ہوگی ۔ خصوصاً ان لوگوں کو شدت کے ساتھ نشانہ بنایا جا سکتا ہے جو الطاف حسین سے زیادہ قریب ہیں یا جن پر الطاف کو زیادہ اعتبار ہے ۔ سیکورٹی ذرائع نے گزشتہ کئی سالوں سے ان کے خلاف کوائف جمع کرناشروع کیے تھے اور شاید اب ان اطلاعات پر کارروائی کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ بہر حال کراچی کی سیاست میں ایک زبردست تبدیلی آنے والی ہے ۔ ایک تو الطاف حسین کے حامیوں اوردوسرے ان کے عسکری ونگ کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائی ہوسکتی ہے ۔ اگر حکومت اور سیکورٹی ادارے متحدہ کے عسکری ونگ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو متحدہ ملک کی سلامتی اور اس کی یک جہتی کیلئے کوئی خطرہ ثابت نہیں ہوسکتے ۔ سیکورٹی ادارے دو چیزیں متحدہ سے چھیننا چاہتے ہیں ۔ پہلی تو ان کے احتجاج کی استطاعت ‘ وہ بھی بڑے پیمانے پر احتجاج اور کراچی جیسے شہر میں شٹر ڈاؤن کی صلاحیت اور دوسرے طاقت کے استعمال سے مخالفین کو مرعوب کرنے کی قوت‘ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اس کے سیکورٹی ادارے ان اہداف کو کس طرح اورکب حاصل کریں گے ۔ شواہد ظاہر ہیں کہ متحدہ کے عام حمایتیوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ صرف اور صرف الطاف حسین کے خاص پیرو کاروں اورعسکری ونگ سے متعلق لوگوں کو جو سینکڑوں کی تعداد میں ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہیں ان کو تو براہ راست پھانسی دی جائے گی جن کو عدالتوں سے پھانسی کی سزائیں ہوئی ہیں ۔ ان میں اجمل پہاڑی اور صولت مرزا جیسے لوگ جنہوں نے اپنے اقبالی بیانات اپنی مرضی سے دئیے تھے ۔ ایک خاص گروہ کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے جنہوں نے بھارت اور جنوبی افریقہ میں گوریلا ٹریننگ حاصل کی تھی ۔