موجودہ انتخابی نظام مکمل طورپر ناکام ہوگیا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ انتخابی عمل کو ایک تجارت بنایا گیا ہے ۔ ’’ سیاسی رہنماء ‘‘ انتخابی عمل میں زبردست سرمایہ کاری کرتے ہیں اور منتخب ہونے کے بعد اپنی سرکاری حیثیت اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ جتنی سرمایہ کاری انہوں نے کی ہوتی ہے اس سے ہزاروں گنا زیادہ رقم بٹورتے ہیں انتخابی عمل ایک تجارت بن گئی ہے اور اس نے سیاسی عمل یا جمہوری عمل کو ناکام کردیا ہے۔ پنجاب جیسے سب بڑے صوبہ میں بڑی اور مقبول پارٹی کا ٹکٹ ملنا اس بات کی بذات خود ضمانت ہے کہ بندہ ارب پتی بن جائے وہ اپنے اختیارات اور اثر ورسوخ کا غلط استعمال کرکے پہلے اپنے ’’انتخابی اخراجات‘‘ وصول کرے گا اور اس کے بعد منافع کی رقم جمع کرے گا تاکہ آئندہ انتخابات کے ممکنہ اخراجات پہلے سے اس کے پاس موجود ہوں۔ لہذا عام انتخابات میں سب سے پہلے تو آزاد امیدواروں پر زبردست پابندی عائد کی جائے تاکہ ’’ سیاسی منڈی ‘‘ میں گھوڑے قابل خرید نہ ہوں۔ اکثر دیکھا گیا ہے خصوصاً 1985ء کے انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں ان افردا کو ٹکٹ جاری کرتی ہیں جو ’’ انتخابی اخراجات ‘‘ برداشت کر سکتے ہوں ۔ بلکہ مزید یہ کہ وہ افراد اتنی ہی رقم پارٹی فنڈ میں دیں تاکہ پارٹی انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لے سکے ۔ اس طرح سیاسی پارٹیاں ابتداء سے ہی ’’ بکاؤ مال ‘‘ جمع کرتی ہیں اور اس سیاسی منڈی کا اہتمام کرتی ہیں ۔ اگر کوئی کارکن اس عمل پر اعتراض کرے تو اس کا حشر قادر پٹیل جیسا ہوجائے گا۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ سندھ سے باہر کے لوگوں اور دولت مندوں کو پی پی پی کے سینٹ کا ٹکٹ دیا گیا بلکہ ان کو جتایا بھی گیا اور پارٹی کے کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا۔ چونکہ ہمارا معاشرہ مکمل طورپر کرپٹ ہوگیا ہے اس لئے یہاں اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسرے الفاظ میں بڑی بڑی پارٹیاں ’’ مفاد پرستوں ‘‘ کے ٹولے سے کم نہیں ہیں ۔ یہ صرف اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی حفاظت کرتے ہیں ۔اکثر قومی اسمبلی میں جانے اور قومی اسمبلی کی کارروائی رپورٹ کرنے کا موقع ملا، اس دوران یہ انکشاف ہو ا کہ اور یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ اراکین اسمبلی کو کارروائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی وہ ایک مفاد پرستوں کے کلب میں ہوتے ہیں، پورا دن اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ وہ ملکی حالات اور خطر ناک صورت حال سے لا پرواہ نظر آتے ہیں کتنی ہی اہم بات زیر بحث ہو مگر وہ سنجیدہ باتیں اکثر اراکین کو متاثر ہی نہیں کرتیں۔ اکثر اراکین اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ،خصوصاً قومی اور سیکورٹی کے معاملات میں ان کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔ اس لئے موجودہ نظام انتخاب ناکام ہوگیا ہے ۔ قابل اور مستحق شخص انتخابات جیتنے اور قومی اسمبلی میں پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ رکن بننے کے لئے کروڑوں روپے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں انتخابی کارکنوں کی بھرتی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے انتخابی عمل سے پہلے پارٹیاں خصوصاً بڑی پارٹیاں اپنے اراکین کی لسٹ دیں اور جتنی مناسبت سے ان کو ووٹ ملیں اسی تناسب سے پارٹیوں کو نمائندگی دی جائے افراد کو قومی اسمبلی اور سینٹ کی سیٹ خریدنے کی اجازت نہیں دی جائے ۔ انتخابی عمل کو تجارت بنانے سے روکنے کے انتظامات کیے جائیں ۔ اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کو ’’ ترقیاتی فنڈز ‘‘ ذاتی اسکیموں کے لئے نہ دئیے جائیں ،صرف منصوبہ بندی کا ادارہ اجتماعی منصوبہ بنائے اور اس پر عمل کیاجائے۔ بلوچستان میں بعض اسمبلی اراکین کے اپنے ذاتی اسکیم اور ترقیاتی اسکیم ٹھیکے داروں کے ہاتھوں فروخت کررہے ہیں ۔ نیب پہلے ان اراکین اسمبلی پر ہاتھ ڈالے اور بعد میں غریب ملازمین کی طرف رخ کرے ،یہ نا انصافی ہے سزا پہلے طاقتور اور زیادہ کرپٹ کو دی جائے، افسران اس کی پشت پناہی کرتے ہیں لا وارث ملازمین کے خلاف کارروائی کرتے ہیں ۔
انتخابی اور سیاسی اصلاحات
وقتِ اشاعت : March 24 – 2015