افغانستان میں ثور انقلاب کیا برپاہوا کہ امریکا سمیت تمام مغربی قوتوں نے یکجا ہوکر اس کی ناکامی کی تدبریں تلاش کرنا شروع کردیں ۔ روسی افواج کئی سالوں تک افغانستان میں قیام پذیر رہنے کے بعد انہی ممالک کی سازشوں کے نتیجے میں انقلاب کی ناکامی کا میڈل سینے پر سجا کر افغانستان سے نکلنے پرمجبور ہوئیں، اس انقلاب کی آڑ میں دنیا کی تاریخ میں ’’ انسانوں کی سمگلنگ ‘‘ یا منتقلی ‘‘ پاکستان کے عوام خصوصاً دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام کو دیکھنا پڑا۔ اس منتقلی کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی جب ان افغانیوں کو مغربی قوتوں نے اپنا آلہ کار بنا کر بطور ڈھال استعمال کیا ۔ روسی افواج کے ساتھ ساتھ اب امریکی افواج کے ساتھ سالوں کی جنگوں پرمحیط عرصے میں اب تک کئی لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے لاکھوں افراد معزور ہوگئے اور اتنی ہی بڑی تعداد میں بچے کچے افراد بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں آباد ہوگئے ۔ شروع کے دنوں میں انہیں مہاجرین کے کیمپوں میں رکھا گیا ۔ جہاں انہیں مغربی ماملک سے بڑی رقم بھی ملتی تھی۔ اس رقم سے ہماری بیورو کریسی بھی چاندی ہوتی رہی ۔ لاکھوں افراد نے ملازمتیں حاصل کرکے امدادی اشیاء پر ہاتھ صاف کیے اورجائیدادوں کے مالک بن بیٹھے ۔اس تمام صورت حال میں جب روسی افواج کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیاگیا تو ان صوبوں میں موجود لاکھوں کی تعداد میں کیمپوں میں موجود مہاجرین کی امداد بھی آہستہ آہستہ کرکے ختم کردی گئی ۔ ایک طرح سے مغربی ممالک نے کام مکمل ہونے کے بعد ان مہاجرین کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ۔ جس پر ان مہاجرین نے افغانستان میں طالبان کی حکومت سے لے کر آج تک آنے والی حکومتوں میں واپسی کا سفر باندھنے کی بجائے ان صوبوں کے علاوہ پورے پاکستان میں پھیلنے اور آباد ہونے کو ترجیح دی۔ اس میں چند ایک پشتون قوم پرست جماعتوں کے ساتھ پشتون دینی جماعتوں کا گھناؤنا کردار بھی رہا جنہوں نے اپنا اپنا ووٹ بینک حاصل کرنے کے لئے انہیں پاکستانی شہریت دلانے کے لئے تمام دستاویزات اور خاص کر قومی شناختی کارڈ بنانے میں مدد دی ۔ وفاقی محکمہ نادرا سے وابستہ بیورو کریسی نے جعلی کاغذات کے بل بوتے پر اب تک لاکھوں افغان مہاجرین کو نہ صرف شناختی کارڈ جاری کیے بلکہ لاکھوں افراد کے شناختی کارڈ بلاک کر دئیے گئے ۔جن کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب افغان مہاجرین ہیں جو جعلی کاغذات کے بل بوتے پر اور انہی لسانی جماعتوں کی آشیر باد سے مقامی بننا چاہتے ہیں تاکہ وہ مقامی افراد کے وسائل پر قابض ہوسکیں جس کا وہ عملی مظاہرہ عرصہ تیس چالیس سالوں سے کرتے چلے آرہے ہیں ۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو چھوڑ دئیے ۔ بڑے بڑے شہروں کراچی ‘ لاہور ‘ اسلام آباد ‘ میانوالی ‘ ملتان سمیت ہر گاؤں اور قصبوں میں یہ افغان مہاجرین آباد نظر آتے ہیں جن کے پاس یا تو جعلی قومی شناختی کارڈ ز ہیں یا پھر ہماری کرپٹ پولیس اور دیگر ادارے مک مکا کرکے مخصوص رقم لے کر انہیں ان بڑے شہروں میں کھلے عام رہنے ‘ جائیدادیں خریدنے یا کاروبار کرنے کی اجازت دے دیتی ہے ۔یہ ادارے قومی جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے مقامی افراد کے ساتھ نا انصافی کا مظاہرہ محض رشوت کے چند ٹکوں کی خاطر کررہے ہیں ۔ جبکہ اس طرح کا کوئی واقعہ قریبی ملک ایران میں دیکھنے کو نہیں ملتا جہاں لاکھوں افغان مہاجرین کیمپوں تک محدود نظر آتے ہیں ۔ انہیں ورک پر مٹ پر کہیں پر آنے جانے کی سہولت حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ کسی قسم کی دستاویز حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایرانی قوم سے تعلق رکھنے والی وہاں کی مقامی پولیس ہو یا نادرا کی جیسی بیوروکریسی ‘ وہ جذبہ حب الوطنی میں کسی غیر ملکی کو شناختی کارڈ بنانے کا تصور نہیں کر سکتی جبکہ بد قسمتی سے ہماری پولیس اور کرپٹ بیورو کریسی رشوت کے چند روپوں کی خاطر تواتر کے ساتھ اب تک اپنے اس گھناؤنے عمل سے لاکھوں افراد کو مقامی بنا چکی ہے جس کا خمیازہ اب پوری قوم دہشت گردی کے واقعات کی صورت میں بھگت رہی ہے ۔ آج نہ تو ہمارے تعلیمی ادارے محفوظ ہیں اور نہ ہی کوئی شہر ‘ وہ کون سا شہر ہے جہاں ان دہشت گردوں نے خون کی ہولی نہ کھیلی ہو۔ مساجد اور گر جا گھروں میں بم دھماکوں کے واقعات ہوں یا شاہراہوں پر پھٹنے والے بم ہوں ۔ اب تک لاکوں پاکستانی خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخواکے لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ نا معلوم یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا کیونکہ حکومتوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ چاہے حالات کچھ بھی ہوں ۔ انہوں نے ان لاکھوں افغان مہاجرین کی واپسی کیلئے لب کشائی نہیں کرنی ہے کیونکہ ایسا کرنے سے مغربی قوتیں ہم سے ناراض ہوں گی ۔ ہم اپنے لوگوں کے خون کی ہولی کو دیکھ سکتے ہیں کیونکہ ان میں ہمارا اپنا کوئی سگا رشتہ دار نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت نے تمام بڑے خونی واقعات کے باوجود ان افغان مہاجرین کی واپسی کے بارے میں جامع پالیسی نہیں بنائی۔ اور آج عالم یہ ہے لاکھوں مہاجرین کی کھلے عام جلال آباد اور قند ہار سے پشاور اور چمن کے راستے کوئٹہ اور پھر ملک کے بڑے بڑے شہروں منتقلی کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی ایک ہفتہ قبل افغان فوج کے دو سپاہیوں کو چمن کی ایک سڑک پر موٹر سائیکل پر گولیوں کانشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتا ر دیا گیا جس کی تفصیل اخبارات میں یہ چھپی کہ ان افغان فوجیوں کا تعلق افغان علاقہ ہلمند سے تھا جو اپنے علاج کے سلسلے میں بغیر پاسپورٹ کے پاکستان کے سرحدی شہر چمن میں آسانی سے داخل ہوئے اور وہ علاج کی غرض سے کوئٹہ آنا چاہتے تھے کہ نا معلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے ۔ اسی طرح اور بھی مثالیں ہیں ایف سی حکام دوران چیکنگ ان افغان مہاجرین کو کوئٹہ ‘ کراچی اور تربت ‘ تفتان جانے والی بسوں سے اتار کر گرفتار کرتی ہے جو بغیر سفری کاغذات کے ہمارے ملک میں آزادانہ اور بلکہ یوں کہئے کسی خوف کے بغیر سفر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ قانون کی بے قدری کس قدرہے یہ اپنے ملک میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں ہم اپنے سے تباہ حال ملک افغانستان کی حالت دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں پاکستانیوں کی ایسی درگت بنائی جاتی ہے کہ وہ اس ملک کا دوبارہ سفر کرنے پر موت کو ترجیح دیتے ہوں گے۔ کیونکہ گرفتاریوں کی صورت میں انہیں شدید نفرت اور تعصب کا مظاہرہ کرکے شدید ٹارچر کرکے ادھ موا کرکے زندانوں میں پھینک دیا جاتا ہے ۔جہاں ان سے ملاقات کی سہولت تک نہیں دی جاتی جبکہ اس کے مقابلے میں ایران کی حکومت اس طرح نہ تو پاکستانیوں سے نفرت کرتی ہے اور نہ ہی گرفتاریوں پر مظالم ڈھاتی ہے ۔ بلکہ اپنے قوانین کے مطابق قیدو بند اور جرمانوں کی صورت میں کارروائی کرتی ہے ، کہنے کامقصد یہ ہے کہ ہم نے ان افغانیوں کو اپنے سر پر چڑھا رکھا ہے انہیں تمام ملکی دستاویزات حاصل کرنے کی آسانی سے سہولت دے رکھی ہے اس کے بدلے ہمیں کتنے نفلوں کا ثواب ملتا ہے کم از کم ملک بھر میں ان کے ہاتھوں دہشت گردی کے واقعات دیکھنے کے باوجود ہم نے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں ۔ ان کی واپسی کے لئے کوئی پلان نہیں بنا رہے بلکہ اکثر وبیشتر وفاقی وزراء صاحبان یہ کہتے ہوئے ہلکان نظر آتے ہیں کہ ’’ افغان مہاجرین کو زبردستی نہیں بھیج سکتے ‘‘ انہیں با عزت بھجوانا چاہتے ہیں ‘‘ مغربی ممالک ان کو اپنے وطن واپس بھجوانے کے عمل کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ ان سے پاکستان کو ملنے والی رقم (بھیک) ملنے میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے وغیر ہ وغیرہ ‘ ہماری حکومتیں اس وقت حرکت میں آتی ہیں جب اسلام آباد کی سبزی منڈی میں یا اسلام آباد میں کسی اور جگہ کوئی بڑا دہشتگردی کا واقعہ ہو تو پھران افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ ٹی وی خبر نامہ تک محدود ہوجاتی ہے اس کے بعد پھر طویل خاموشی اور اللہ اللہ خیر سلا۔۔ جہاں تک بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے خونی واقعات کا تعلق ہے وفاقی حکومت اور وفاق کی بیورو کریسی کو ذرا بھر نہ تو پرواہ ہے نہ ہی وہ ان صوبوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے ۔ یہاں جتنے بڑے الماک واقعات ہوئے یا خدانخواستہ مستقبل میں ہوں گے،ان افغانیوں کی واپسی کے بارے میں کوئی پالیسی نہیں بنائی جائے گی یہی وجہ ہے کہ اب ان دونوں صوبوں کے عوام ان افغان مہاجرین سے بیزار آچکے ہیں جواب مکمل طورپر پاکستانی دستاویزات رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے کروڑوں روپوں کی جائیدادیں خرید رکھی ہیں ۔ کوئٹہ اور پشاور سمیت لاہور ‘ کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں پلازوں کے مالک بن بیٹھے ہیں ۔۔ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا یہ اپنے ملک میں اس قدر آزاد گھوم پھر نہیں سکتے جتنے یہ ہمارے ہاں آزادی محسوس کرتے ہیں ۔افغان علاقوں میں قتل و غارت کرنے والے تمام جرائم پیشہ افراد یا تو کوئٹہ میں یا پھر پشاور میں پناہ لیتے ہیں ۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہماری کرپشن کی کوئی حد مقرر نہیں چند سال قبل یہ خبر اخبارات ک زینت بنی کہ کوئٹہ کے بائی پاس پر ایک ٹرک کے کنٹینر میں ڈالے گئے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد اس وقت لقمہ اجل بن گئے جب کنٹینر کا دروازہ کھولا گیا تو اس میں موجود تمام افراد دم گھٹنے کے باعث مر چکے تھے جو چمن کے راستے چوری چھپے پاکستان میں داخل ہو کر کوئٹہ پہنچے۔ اس پر ہائیکورٹ میں مقدمہ چلا ‘ نتیجہ کیا نکلا کچھ علم نہیں۔ اسی طرح ایف آئی اے کے ہاتھوں نادرا کوئٹہ اور نادرا کندھ کوٹ کے اہلکاروں کی گرفتاری کی خبریں تواتر کے ساتھ شائع ہورہی ہیں ۔ جو ان افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ بنانے میں ملوث پائے گئے ۔ کندھ کوٹ سے نادرا کی ٹیم اپنی گشتی گاڑی سمیت پکڑی گئی ۔ اتنے بڑے پیمانے پر شناختی کارڈ بنائے جارہے ہیں اس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ آج تک کسی بڑے پاکستانی آفیسر کو جیل کی سزا نہیں ملی ہوگی ۔اب صورت حال مقامی لوگوں کے بس سے باہر ہوتی جارہی ہے ۔ ان مہاجرین سے نفرت کی فضاء پروان چڑھ رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب بلوچستان کے بلوچ علاقوں سمیت پشتون علاقوں سے بھی ان کی بیدخلی کی آوازیں بلند ہورہی ہیں یہاں پر میں کاکڑ جمہوری پارٹی کے مرکزی صلدر ملک شمس الدین کاکڑ ‘ نثار احمد کاکڑ‘ بشیر احمد کاکڑ‘ ژوب قومی جرگہ کے چئیرمین ا ختر شاہ مندوخیل ‘ ملک نور محمد لوون ‘ ارسلا خان مندوخیل ‘ اللہ داد سمیت شاہوانی اتحاد کے جرگہ کے رہنماؤں میر الیاس شاہوانی ‘ عبدالکریم ریکی ‘ جان سمالانی، شاہ زیب لہڑی ‘ محمو د مرسی اور سردار خان رند کے شائع بیانات شامل کررہا ہوں جنہوں نے اپنے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ پاکستان اورصوبوں کے امن کے لئے افغان مہاجرین کا انخلاء ناگزیر ہے ۔ ان پشتون رہنماؤں کے بقول ایک پشتون پرست پارٹی نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے صوبے کو افغان مہاجرین کے حوالے کردیا ہے ۔ جس سے یہاں کے لوکل اقوام اقلیت میں تبدیل ہوگئے ہیں جبکہ انہوں نے پورے ملک کے امن کو چیلنج بنا دیا ہے ۔ ان رہنماؤں کے مطابق پورے ژوب ڈویژن، لورالائی اور دکی میں افغان مہاجرین یا افغان پاوندوں نے قبضہ کیا ہوا ہے جن کی پشت پناہی پشتون خواہ ‘ اے این پی سمیت تمام سیاسی پارٹیاں کررہی ہیں اور ووٹ کی خاطر یہ سیاسی جماعتیں انہیں قومی شناختی کارڈ ‘ لوکل سرٹیفکیٹس ‘ الیکشن کمیشن میں اندراج کرارہی ہیں جس کیوجہ سے مقامی اقوام کی حق تلفی ہورہی ہے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مقامی اقوام کو اپنے جائز حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور ہماری ملازمتیں افغان مہاجرین یا افغانی پاوندوں کو چند لاکھ میں فروخت کی جارہی ہیں ۔ بی این پی عوامی کے رہنماؤں عید محمد ‘ محمد عامر اور محمد عظیم کاکڑ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تقریباً پندرہ لاکھ افغان مہاجرین با قاعدہ یو این ایچ سی آر کے تحت رجسٹرڈ ہیں ۔ اور قانونی طورپر مہاجرین کہلاتے ہیں لیکن اس کے برعکس لاکھوں افغانی جو کہ شہروں میں رہتے ہیں ان کو اقوام متحدہ اور بین الا قوامی قوانین مہاجرین تصور نہیں کرتے ایسے افغانیوں کو غیر قانونی تارکین وطن تصور کرتے ہیں اور ان کی شہروں میں رہائش غیر قانونی ہے ان لوگوں نے غیر قانونی طورپر جائیدادیں بنا رکھی ہیں اور غیر قانونی طور پر شہروں میں کاروبار کرتے ہیں اور اسمگلنگ میں بھی ملوث ہیں اسوقت کوئٹہ شہر میں تقریباًپچیس لاکھ افغان تارکین وطن غیر قانونی طورپر نہ صرف کاروبار کررہے ہیں بلکہ جائیدادوں کے مالک بن گئے ہیں جبکہ نصف سے زیادہ کونسلرز افغان مہاجرین ہیں لہذا دوتانی ‘ خلجی، بڑیچ ،نورزئی ‘ بادیزئی ‘ درانی ‘ الکوزئی ‘ سلمان خیل، تاجک اور ازبک و دیگر کے شناختی کارڈ، لوکل ،برتھ سرٹیفکیٹ ، ووٹر لسٹ وغیرہ فوری طورپر منسوخ اور ان کو افغانستان منتقل کیا جائے ۔ اسی طرح کا ریزات پشین کے ایس بی تھیلا سیما اینڈ ویلفئیر سوسائٹی کے چئیرمین احمد خان کاکڑ سمیت علاقے کے قبائلی معتبرین عبیداللہ کاکڑ ‘ سرور عظمت اللہ ‘ سعداللہ ‘ محمد عظیم ‘ نیاز احمد ‘ اسد خان ‘ باز محمد ‘ حبیب اللہ خان ‘ ہدایت اللہ اور دیگر نے ایک منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ افغان مہاجرین کو کاریزات کے دیہات سے فوری طورپر سر خاب مہاجر کیمپ منتقل کیا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے سارا علاقہ متاثر ہورہا ہے جن میں مرغہ زکریازئی ‘ نیو کاریز ‘ زمین نگاندہ ‘ ساگئی ‘ شرن عمرزئی ‘ ندی کاریز نارین کے لوگ زیادہ متاثر ہورہے ہیں ۔ ان مہاجرین نے علاقہ کی جنگلات کو ایندھن کے طورپر استعمال میں لاکر اسے نا قابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں ۔ جبکہ ان کی وجہ سے علاقے میں زراعت پر بھی برا اثر پڑا ہے ۔ جبکہ مہاجرین کی وجہ سے چو ری ‘ رہزئی اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ جو مقامی لوگوں کے ساتھ سراسر ظلم اور زیادتی ہے اس سلسلے میں کئی مرتبہ اے سی کاریزات اور ڈپٹی کمشنر پشین کو درخواستیں بھی دی گئیں لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوا لہذا حکومت فوری طورپر مقامی افراد کی پریشانیوں کا نوٹس لیتے ہوئے ان افغان مہاجرین کو سرخاب مہاجر کیمپ میں رکھنے کے احکامات جاری کرے تاکہ مقامی آبادیاں ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہیں ۔ ان رہنماؤں کے مطابق حکومت اب خود اعتراف کرتی ہے کہ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آباد ہیں جبکہ سینٹ کی دفاعی کمیٹی طلحہ محمود کی سربراہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغان مہاجرین نے لاکھوں کی تعداد میں جعلی شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا حکومت کہتی ہے کہ ان کے صوبے میں تقریباً ساٹھ لاکھ افغان مہاجرین ہیں وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے میں تقریباً بیس لاکھ افغان مہاجرین آباد ہیں اندرون سندھ میں افغان مہاجرین لاکھوں کی تعرداد میں رہ رہے ہیں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں لاکھون افغان مہاجرین ہیں جبکہ بلوچستان کی حد تک دیکھا جائے تو صرف کوئٹہ میں پچیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین رہ رہے ہیں اس کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں تقریباً چالیس لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں اسی طرح فاٹا میں ان کی آبادی علیحدہ ہے اس تناظر میں پورے ملک میں افغان مہاجرین کی آبادی کو دیکھا جائے تو اس وقت ڈہائی کرؤڑ سے زیادہ بنتی ہے ۔ جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے اس بارے میں ان کی خاموشی انتہائی قابل ا فسوس ہے بلوچ علاقوں میں سیاست کرنے والی جماعتوں میں صرف بلوچستان نیشنل پارٹی واحد جماعت ہے کہ وہ اس مسئلہ کو ہر فورم پر اٹھا رہی ہے ورنہ دیگر جماعتیں حکومتی سطح پر اپنا اتحاد بر قرار رکھتے ہوئے ان غیر بلوچ پارٹیوں کی ہاں میں ہاں ملا کر قومی جرم کا ارتکاب کررہی ہیں جنہیں بلوچ عوام پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہی جس کا مستقبل کی سیاست پر ان جماعتوں پر منفی اثر رونما ہوگا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان کے حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں چالیس لاکھ افغان مہاجرین نہ صرف بلوچوں بلکہ پورے بلوچستانیوں کے لئے مسائل کا سبب بن رہے ہیں لہذا ان کے انخلاء کو یقینی بنایا جائے ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں کو غیر قانونی اور سیاسی بنیادوں پر جاری شناختی کارڈ ‘ پاسپورٹ اور لوکل سرٹیفکیٹس منسوخ کیے جائیں ان مہاجرین کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔مہاجرین بلوچ ہی کیوں نہ ہوں فوری طورپر ان کو کیمپوں میں تک محدود کیا جائے انہی کی وجہ سے بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی ‘ دہشت گردی ‘ فرقہ واریت اور مذہبی جنونیت سمیت بلوچستان میں کلاشنکوف کلچر ‘ انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ نادرا میں اس سے قبل پیسے کے بل بوتے پر اور غیر قانونی طورپر سیاسی دباؤ کے ذریعے ساڑھے پانچ لاکھ خاندانوں کو جعل سازی کے ذریعے شناختی کارڈ ‘ پاسپورٹ کا اجراء کیا گیا۔ بیان میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ پارٹی کسی متوقع خانہ شماری یا مردم شماری کو چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں قبول نہیں کرے گی ۔
18مارچ بروز بدھ اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں بلوچستان کی طرف سے صوبے میں امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر مردم شماری ملتوی کرنے کی تجویز دی گئی جس سے وفاق اور دیگر صوبوں نے اتفاق نہیں کیا یوں بلوچستان کے ما سوائے دیگر تین صوبوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہوئے صوبائی وزیر محمد اسلم بزنجو نے صوبے میں امن وامان کی صورت حال کے پیش نظراستدعا کی کہ جب تک بلوچستان میں امن وامان مکمل طورپربحال نہیں جاتامردم شماری نہ کروائی جائے جس پر وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان کے نمائندے سے کہا کہ اٹھارہ سالوں سے مردم شماری نہیں ہوئی آخری مردم شماری 1998ء ہوئی تھی اور کئی مرتبہ تاخیر کا شکار ہوچکی ہے لہذا دیگر صوبے مردم شماری کی تجویز کی حمایت کررہے ہیں ۔ تو بلوچستان کو بھی اس کی حمایت کرنی چائیے جس پر صوبائی وزیر نے اپنا اعتراض واپس لے لیا اور اس طرح ملک بھرمیں اگلے سال کے اوائل میں مردم شماری کی منظوری دے دی گئی ۔ یہاں پر صوبائی وزیر سردار اسلم بزنجو کی جانب سے محض امن وامان کی صورت حال کو پیش کرنے اور لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی کے بارے خاموشیسے سوالات جنم لیتے ہیں کہ انہوں نے بلوچستان کے اصل مسئلہ کے بارے میں وزیراعظم کو کیوں آگاہ نہیں کیا بلکہ انہوں نے اس بارے میں خاموشی اختیار کرکے یہ ثابت کردیاکہ وہ صوبائی حکومت میں شامل لسانی جماعت کی مخالفت کو برداشت نہیں کر سکے گی۔ اگر انہوں نے افغان مہاجرین کا مسئلہ اٹھایا تو ڈاکٹر مالک بلوچ کی قیادت میں بننے والی اتحادی حکومت دھڑام سے گر جائے گی جسکا یہ وزراء اوران کی پارٹی متحمل نہیں ہوسکتے اس لئے وہ افغان مہاجرین کی موجودگی پر لب کشائی کرنے کی بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی جس پر اجلاس کے شرکاء نے محض امن وامان کی صورت حال کو جواز بنانے کے عمل کو رد کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ فوج اور وفاق مردم شماری کے انعقاد کے لیے صوبائی حکومت سے تعاون کریں گی ۔ صوبائی حکومت کو افغان مہاجرین کی موجودگی کو اپنا پہلا پوائنٹ رکھنا چائیے تھا دوسرے نمبر پر امن و امان کی صورت حال کو ، تب جا کر ان کا کیس مضبوط ہوتا اور وہ بلوچستان میں مردم شماری کرانے کے عمل کو رکوانے میں کامیاب ہوجاتے لیکن افسوس کہ نیشنل پارٹی کے نمائندے نے اس پر خاموشی اختیار کرکے مردم شماری کرانے کی حمایت کردی اس کے رد عمل میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان کا سخت ردعمل بھی اخبارات میں شائع ہوا جس میں انہوں نے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی میں خانہ شماری ومردم شماری کرانے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی اسے ہرگز قبول نہیں کرے گی اوریہ عمل غیر قانونی ہگاکیونکر نادرا کے ذمہ داران اور نیب کی جانب سے ایسے اہلکاروں کو سزائیں سنائی گئیں جنہوں نے لاکھوں افغان مہاجرین کے غیر قانونی شناختی کارڈ بنانے کا اعتراف کیا ۔ جس کے بعد ان افغان مہاجرین نے اپنے پاسپورٹ اور لوکل سرٹیفکیٹس بنوائے ہیں ۔ بیان کے مطابق چالیس لاکھ مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری دراصل بلوچوں کو اپنے ہی مادر وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے کی بڑی سازش ہے ۔
2011ء میں جو خانہ شماری کرائی گئی بلوچستان میں مہاجرین کی وجہ سے بلوچستان کے پشتون اضلاع میں ساڑھے چارسو ،ساڑھے تین سو، اڑہائی سو فیصد آبادی کی شرح بڑھی تھی کیونکہ خانہ شماری میں افغان مہاجرین کے گھر دو دو بار شمار کیے گئے تھے او اس دور کے وفاقی سیکرٹری شماریات نے بلوچستان میں خانہ شماری میں جو غیر قانونی اور جعل سازی کر گئے تھے پریس کانفرنس کرکے اس پر تفصیلاً روشنی ڈالی ، بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جن لاکھوں افغان مہاجرین کی نادرا میں شناختی کارڈ بلاک کئے گئے ہیں آج صوبائی حکومتی سطح پر ان کے اجراء کی تگ و دو کی جارہی ہے۔ اس کے بر عکس وفاقی حکومت اور خیبر پختونخواء کی حکومت نے افغان مہاجرین کی جلد سے جلد واپسی کے لئے واضح پالیسی مرتب کرکے اس کا با قاعدہ اعلان کردیا جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہی ہے جو بقول بلوچستان نیشنل پارٹی کے ترجمان کے قومی جرم کے مترداف ہے ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری کو قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ پارٹی سخت مزاحمت کرے گی کیونکہ یہ ہماری بقاء کا سوال ہے ۔ یہاں پر میں لسانی پارٹی کے ایک ایم این اے کے شائع بیان کو بھی اپنے مضمون میں شامل کررہا ہوں تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔ یہ بات بلوچستان کے عوام شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں کہ جب سے نادراکا محکمہ وجود میں آگیا ہے یا افغان مہاجرین نے بلوچستان کا رخ کر لیا ہے آج تک بلوچوں کو اپنے شناختی کارڈ بلاک کرنے کی کوئی شکایت نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی بلوچ پارٹی نے نادرا یا پاسپورٹ حکام کو بلیک میل کرتے ہوئے اخبارات کو پریس ریلزجاری کیے یا ان کے دفاتر کے آگے مظاہرے کیے کیونکہ یہ بات صاف ظا ہر ہے کہ ایرانی بلوچستان کے بلوچ ہم سے زیادہ آسودہ حال ہیں وہ اپنے ملک میں ہم سے زیادہ خوشحال ہیں انہیں بلوچستان آ کر جعلی طریقے سے شناختی کارڈ بنوانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اس کے مقابلے میں افغانستان کی صورت حال اور افغان عوام کی دربدر کی زندگی بھی ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے یہی وجہ ہے کہ یہ افغان مہاجرین کہنے کو روسی افواج کے افغانستان میں داخل ہونے پر پاکستان آئے لیکن اس انقلاب کو ختم ہوئے عرصہ تیس چالیس سال ہونے کو ہیں اس کے باوجود یہ افغان مہاجرین واپس جانے کا نام نہیں لیتے کیونکہ انہیں مقامی طورپر سہولیات اور عیاشیاں دستیاب ہیں ان کا وہ افغانستان میں تصور تک نہیں کر سکتے ۔ اس لئے لسانی جماعت کے ایم این اے کے شائع بیان میں حسب روایت کہا گیا ہے کہ نادرا نے بلوچستان میں پشتونوں کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے حصول کے حق سے مسلسل محروم رکھا ہے اور ایک درجن سے زائد ’’خود ساختہ‘‘ شرائط مسلط کی ہیں جو آئین اور بنیادی انسانی و شہری حقوق کے منافی ہے۔ نادرا کے اس عمل کو موصوف نے پشتون دشمن طرز عمل قرار دیا ہے ۔ اب قارئین خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ اقلیتی قوم کے ایم این ایز کیوں آسمان سر پر اٹھا کر نادرا کو کوس رہے ہیں ۔ بات صاف ہے کہ وہ افغان مہاجرین کے بلاک ہونے والے شناختی کارڈ دباؤ ڈال کر بحال کرانا چاہتے ہیں تاکہ آنے والی مردم شماری میں ان کو شامل کرکے آباد ی کے تناسب کو بڑھا دیں جو اکثریتی قوم بلوچوں کوکسی صورت قبول نہیں ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے بیان سے صاف عیاں ہے کیونکہ ان افغان مہاجرین کی موجودگی سے مسائل جنم لے چکے ہیں انہوں نے شہروں میں کاروبار پر مکمل قبضہ جما لیا ہے حتیٰ کہ اب یہ ملازمتوں میں کھپائے جارہے ہیں ۔ بلکہ یہ تک کہا جارہا ہے کہ ان میں سے چند ایک ان پارٹیوں کی بدولت حکومتی ایوانوں میں یعنی قومی اسمبلی ، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے جو لمحہ فکریہ ہے حیرانی اس بات کی ہے کہ ان حقائق کے باوجود ہماری فورسز خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں۔ انہیں روکا جائے ورنہ یہ سلسلہ جاری رہے گا جو ملکی سلامتی کے لئے نیک شگون نہیں ، کراچی کی صورت حال ہمارے لئے کڑا امتحان ہے ۔
لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری ایک سوالیہ نشان
وقتِ اشاعت : March 26 – 2015