مشترکہ مفادات کونسل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملک بھر میں مردم شماری اگلے سال کے شروع میں ہو گی۔ بلوچستان کے نمائندے نے اطلاعات کے مطابق اس فیصلہ کی حمایت نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ موجودہ صورت حال میں کوئی بھی با شعور شخص بلوچستان میں مردم شماری کی حمایت نہیں کر سکتا ۔ بلوچستان خطے کا سب سے زیادہ حساس متنازعہ زون Conflict Zoneہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں سے لوگوں کو ایک ہنگامی صورت حال کا سامنا ہے اسی وجہ سے سابق جام یوسف حکومت نے ہنگامی حالات کے پیش نظر وفاق سے وفاقی فورسز کی امداد طلب کی تھی ۔ ابھی تک سرکاری طورپر وہی صورت حال قائم ہے اگر حالات میں بہتری ہوئی ہوتی تو وفاقی فورسز اس وقت تک اپنے معمول کی ڈیوٹی پر جا چکے ہوتے ۔ ایف سی یا فرنٹئیر کور کے دستے بلوچستان کے طول و عرض میں انہی حالات کی وجہ سے موجود ہیں ۔ اس میں ابھی تک بہتری نہیں آئی بلکہ صورت حال میں حالیہ مہینوں میں زیادہ بگاڑ آیا ہے ۔ شہری یا سویلین حکومت صوبہ بھر میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ اگر آتی ہے تو صرف کوئٹہ میں جو صوبے کا دارالخلافہ ہے ۔ مردم شماری صرف امن کے حالات میں کرائی جا سکتی ہے ۔ مردم شماری کا عملہ اکثر علاقوں میں نہیں جا سکے گا۔ ان کے جان کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جبکہ سویلین حکومت صرف ایف سی اوران کے اہلکاروں کے تابع نظر آتی ہے ۔ دوسری سب سے بڑی وجہ افغان غیر قانونی تارکین وطن اور افغان مہاجرین کی بلوچستان میں بڑی تعداد میں موجود گی ہے ۔ بلوچوں کی دو سب سے بڑی سیاسی پارٹیوں بلکہ قوم پرست پارٹیوں نے مردم شماری کرانے کی مخالفت کی ہے ۔ قوم پرست اور زر پرست ہر دو قسم کی پارٹیاں بلوچستان میں موجود ہیں لیکن بلوچوں کی تمام قوم پرست پارٹیوں نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی افغان تارکین وطن کی موجودگی پراعتراضات اٹھائے ہیں اوریہی بلوچ عوام کی اکثریت کی رائے ہے جس کا وفاق اور وفاق کے حکمرانوں کو احترام کرنا چائیے۔ بلوچستان کو سندھ اور پنجاب جیسے نارمل صوبوں کے معیار پر نہ پرکھا جائے ،یہاں حالات قطعاً مختلف ہیں ۔سرکاری ذرائع نے یہ بر ملا تسلیم کیا ہے کہ پانچ لاکھ سے زائد پاکستانی دستاویز اور شناختی کارڈ جعلی افراد کو بنا کر دئیے گئے ہیں۔ تقریباً ایک لاکھ کے لگ بھگ ایسی درخواستوں پر تحقیقات ہورہی ہیں جن کا بلوچستانی اور پاکستانی ہونا مشکوک ہے۔ درخواست دہندگان یہ ثابت نہیں کرسکے ہیں کہ وہ پاکستانی شہری ہیں یا بلوچستان کے باشندے ہیں ۔ایک پریشر گروپ مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ ان مشکوک لوگوں کو پاکستانی دستاویزات اور شناختی کارڈ جاری کیے جائیں ۔یہ پریشر گروپ خود کو پاکستانی سیاست کا امین سمجھتا ہے اور دفاع غیر ملکی باشندوں کا کرتا ہے جو غیر قانونی طورپر پاکستان میں داخل ہوئے ،یہاں تجارت کررہے ہیں اور پاکستانیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔ نادرا اوردوسرے وفاقی اداروں کو ان پریشر گروپس کے دباؤ میں نہیں آنا چائیے بلکہ جعلی دستاویزات اور جعلی دستاویزت پر شناختی کارڈ حاصل کرنے کے جرم پر ان سب کے خلاف فوجداری کے مقدمات قائم کیے جائیں، اس کے ساتھ ہی ان تمام افراد کے خلاف بھی کاروائی ہونی چائیے جنہوں نے ان جعلی افراد کے جعلی دستاویزات کی تصدیق کی ہے۔ بی این پی ‘ نیشنل پارٹی اور دوسرے بلوچ قوم پرستوں کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ پہلے تمام افغانوں بشمول غیر قانونی تارکین وطن کو افغانستان واپس روانہ کیاجائے اور اس کے بعد بلوچستان میں مردم شماری کرئی جائے۔ ویسے بھی دنیا بھر میں مردم شماری کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا ہے جو زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ مسلسل سروے کے ذریعے معلوم کیا جائے کہ آبادی میں کتنا اضافہ ہوا ہے ۔ ویسے بھی مردم شماری کرنے والے لوگوں نے بلوچستان بھر کا کبھی دورہ نہیں کیا، نہ ہی ان کی معلومات اور جائزے حقائق پر مبنی تھے۔ بلوچ قوم پرست حلقوں نے یہ جائز الزامات اٹھائے ہیں کہ بلوچوں کی آبادی کو بہت کم ظاہر کیا گیا ہے۔ ان تمام نتائج سے بلوچوں کے خلاف تعصب کی بو آتی ہے ۔ وفاق پاکستان کے اندر بلوچوں سے بہتر سلوک ہی پاکستان کی سلامتی اور یک جہتی کی باعث بن سکتی ہے۔ بلوچوں کے خلاف تمام متعصبانہ کارروائیاں بند کی جائیں تاکہ بلوچوں کو یہ احساس ہو کہ وہ پاکستان میں برابر کے شہری ہیں ۔
بلوچستان میں مردم شماری
وقتِ اشاعت : March 31 – 2015