دنیا کی چھ بڑی طاقتوں نے ایران کے سول جوہری پروگرام پر عملدرآمد کے حق کو تسلیم کرلیا ۔ایران شروع دن سے یہ کہتے ہوئے آرہا ہے کہ وہ ایٹمی اسلحہ نہیں بنائے گا کیونکہ اسلام میں ایٹمی اسلحہ اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حرام ہیں کیونکہ اس سے خون ناحق بہتا ہے۔ اس میں معصوم انسانوں کی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ اس لئے اسلام میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے ایران نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایٹمی یا جوہری اسلحہ نہیں بنائے گا۔ اس سلسلے میں امام خمینی کا فتویٰ بھی موجود ہے جو جوہری مذاکرات کے دوران دنیا کے بڑے اور طاقتور ممالک کے رہنماؤں کو بھی پیش کیا گیا تھا۔ اس کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ صدر اوبامہ نے بھی اپنی ایک اہم تقریر میں کیا تھا اور اس کی بڑی تعریف کی تھی۔ ابھی تک رسمی معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ حتمی معاہدہ جون میں ہوجائے گا جس میں تمام تفصیلات درج ہوں گی۔ یہ مغرب اور اسرائیل کے دہشت گردوں کی شکست ہے کہ جو دن رات یہ مطالبہ کرتے رہے کہ امریکہ ایران پر حملہ کرے اور اس پر بمباری کرے تاکہ ایران تباہ ہوجائے۔ اس میں امریکی قدامت پسند اور انتہا پسند یہودی پیش پیش تھے۔ یہ معاہدہ خوش آئند ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خطے میں امن رہے گا۔ جوہری معاملات پرمعائدے سے خطے میں جنگ کے خطرات ختم ہوگئے ہیں ایران ابتداء سے یہ ثابت کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے جنگی مقاصد کے لیے نہیں۔ جتنی بار اقوام متحدہ کے اداروں نے ایران کے جوہری توانائی کے اداروں کا معائنہ کیا تو ان کو ہمیشہ تسلی ہوئی کہ یہ صرف اور صرف پرامن مقاصد کے لیے ہیں۔ ان کو کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ایران جوہری توانائی کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔ اقوام متحدہ کے جوہری ادارے نے اس معاملے میں بہت ہی مثبت کردار ادا کیا اور آخر کار ایران اور دنیا کے چھ طاقتور ممالک کے درمیان معاہدہ ہوگیا۔ مذاکرات کے ابتداء سے ہی روس اور چین اس بات پر مطمئن تھے کہ ایران جوہری اسلحہ نہیں بنائے گا۔ بعد میں جرمنی بھی ان دونوں ممالک میں شامل ہوا اور یہ تصدیق کردی کہ ایران کی جدوجہد صرف ایٹم بم کو پرامن مقاصد کے لئے استعمال میں لانا ہے جنگی مقاصد کے لیے نہیں۔ ادھر امریکہ، فرانس اور برطانیہ جو زیادہ یہودی انتہا پسندوں اور اسرائیلیوں کے زیر اثر تھے اپنے شکوک اور شبہات کا اظہار کرتے رہے کہ مذہبی اور جنونی ایران ایٹم بم ضرور بنائے گا۔ ایران نے اس کی مسلسل تردید کی اور اس کے لئے زبردست مہم چلائی کہ اسرائیل اور اس کے ایجنٹ جوہری مذاکرات کو ناکام بنانا چاہتے ہیں یہاں تک کہ اسرائیلی وزیراعظم نے حکومت امریکہ کے دعوت کے بغیر امریکی کانگریس کو خطاب کیا اور امریکی اراکین پارلیمان سے اس سلسلے میں نعرہ بازی بھی کروائی اور اس طرح سے براہ راست دباؤ بڑھادیا کہ ایران سے جوہری معاہدہ نہ کیا جائے کیونکہ اس سے اسرائیل اور پوری دنیا کو خطرات لاحق ہوں گے۔ یہ معاہدہ اپنی جگہ ایک خوش آئند بات ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ایران کو فوری طور پر راحتیں فراہم کی جائیں۔ اس کے خلاف تمام معاشی، فوجی، سفارتی اور دوسری پابندیاں فوری طور پر ہٹالی جائیں۔ ویسے بھی کسی ملک کے خلاف پابندیاں لگانا عوام اور انسان دشمنی ہے جس کا مقصد عوام الناس کو ناکردہ گناہوں کی سزا دینا ہے۔ ایران افراط زر کا شکار ہے ان معاشی اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی کرنسی ریال کی قدر بہت زیادہ کم ہوگئی ہے۔ اس کے تیل کی فروخت پر پابندی، ایران کو تیل کی قیمت کی ادائیگی پر پابندی اور سب سے زیادہ بنک کے ذریعے ترسیل زر پر پابندی کا مقصد صرف اور صرف ایران کی قومی معیشت کو تباہ کرنا تھا۔ تفصیلی معاہدہ سے قبل بین الاقوامی برادری کو ایران پر عائد تمام پابندیاں ہٹالینی چاہئیں تاکہ ایران زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کے منازل طے کرے۔
ایران کے حق کو تسلیم کرلیا گیا
وقتِ اشاعت : April 7 – 2015