حکومت پاکستان نے یمن کے بحران پر ایک واضح موقف اپنایا ہے۔ ملک کی اکثریت اس پالیسی کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔ تاہم حکومت پاکستان نے اس مسئلہ کو صرف سعودی عرب کی سالمیت کی حمایت سے تعبیر کیا ہے۔ حالات اور واقعات شاید ہیں کہ یمن کا بحران مختلف ہے اور اس کی وجہ سے سعودی عرب اور اس کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سعودی عرب اپنی ذات کی وجہ سے ایک طاقتور ملک ہے۔ یمن کے ایک اقلیتی گروہ کی وجہ سے سعودی عرب کی سلامتی خطرے میں نہیں پڑسکتی تاہم سعودی عرب کے یمن میں جائز مفادات ہیں۔ سب سے بڑا یہ ہے کہ اس کے پڑوس میں امن ہونا چاہئے اور کوئی بھی ملک اپنے پڑوس اور ارد گرد کے ماحول میں خانہ جنگی کو پسند نہیں کرتا اور اس پر اپنی تشویش کا اظہار ایک لازمی اور قدرتی امر ہے۔ لیکن خانہ جنگی کے دوران دو اہم ترین واقعات ہوئے۔ پہلا یہ کہ ایران اور اس کا مضبوط مذہبی مقتدرہ اس جنگ میں کود پڑا اور اس نے شیعہ اقلیت کی حمایت میں بہت بڑا کردار ادا کیا اور ان کی اس حد تک ہمت افزائی کی کہ انہوں نے حکومت اور فوجی اڈوں پر قبضہ کرلیا۔ صدر اور وزیراعظم کو نہ صرف معزول کیا بلکہ ان کو فوجی جرنیلوں سمیت یرغمال بنالیا۔ دوسرا مسئلہ علی عبداللہ صالح سابق صدر کا ہے۔ وہ ذاتی طور پر اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتا ہے اور وہ یمنی افواج کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔ حوثی باغی اور علی عبداللہ صالح کے حامی افواج متحد ہوکر بڑی قوت بن کر ابھرے اور ان کو ایران کی فوجی، اخلاقی، مالی اور سفارتی حمایت بھی حاصل ہوگئی جس کی وجہ سے راتوں رات 16ممالک پر مشتمل عرب فوجی اتحاد نے ان پر فضائی حملے شروع کردئیے۔ شاید اس کا مقصد بھی عبداللہ صالح اور ایران کے حمایتی حوثی باغیوں کی جنگی صلاحیت کو تباہ کرنا تھا تاکہ وہ پورے خلیج میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ نہ کرسکیں۔ اگر ان کی جنگی صلاحیت کو تباہ نہ کیا گیا تو ان کا اثر و رسوخ گلف ممالک تک پھیل جائے گا اور پورے خطے میں عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لئے سعودی عرب نے نہ صرف پاکستان بلکہ مسلمانوں کے دوسرے دو بڑے ممالک ترکی اور مصر سے بھی امداد طلب کی ہے تاکہ باب المندب کا دروازہ جہاز رانی کے لئے کھلا رہے اور دنیا کی معیشت کو 40فیصد سے زیادہ تیل اسی آبنائے باب المندب سے ملے۔ مصر نے فوری کارروائی کرکے باب المندب کے گرد سیکورٹی کا حصار کھڑا کردیا اور دو بحری جنگی جہاز آبنائے باب المندب کے دہانے پر حفاظت کے لیے کھڑے کردیئے۔ ترکی اور پاکستان دو دوسرے بڑے اسلامی ممالک سعودی عرب کی حمایت کررہے ہیں اور یمن کی صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایران کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ حوثی باغیوں کو مذاکرات کے لیے تیار نہ کرے مگر سعودی عرب اور اس کا حمایتی یمنی صدر منصور ہادی یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ حوثی باغی ہتھیار ڈال دیں اور یمن کی قانونی حکومت کو تسلیم کریں تاکہ ملک میں امن قائم ہو۔ ابھی تک پاکستان اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ وہ کس طرح سے سعودی عرب کی مدد کرے۔ سیاسی اور عسکری رہنماؤں نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ایک اعلیٰ سطحی وفد جس میں سیاسی اور عسکری ماہرین شامل ہوں وہ سعودی عرب کا دورہ کریں۔ وہاں سعودی حکام سے ملیں اور یہ معلوم کریں کے سعودی عرب کو پاکستان سے کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔ سعودی حکومت کے اپنے کیا توقعات ہیں کہ پاکستان ان کی کسی طرح مدد کرسکتا ہے۔ ویسے پاکستان اور سعودی عرب میں دیرینہ قریبی فوجی تعلقات ہیں اور آئے دن دونوں ممالک جنگی مشقیں کرتے رہتے ہیں مگر پاکستان کے مسلح افواج سعودی عرب میں اس لئے موجود نہیں ہیں کہ وہ جنگی کارروائیوں میں حصہ لیں۔ پاکستان کا وفد سعودی عرب کے دورے پر ہے اور سعودی توقعات اور امداد کا اندازہ لگارہا ہے تاکہ خطے میں امن قائم ہو۔ ویسے بھی اس جنگ کی جلد پھیلنے کی توقعات نہیں ہیں کیونکہ اس سارے کھیل میں کھیل کا اہم ترین کھلاڑی ایران تنہا ہوکر رہ گیا ہے اور وہ اپنی یہ تنہائی سیاسی اور سفارتی عمل کے ذریعے توڑسکتا ہے وہ حوثی باغیوں کو مجبور کرسکتا ہے کہ مذاکرات کی میز پر آئیں بلکہ یمن کی قانونی اور جائز حکومت کو بھی تسلیم کریں۔
یمن کا بحران اور پاکستان
وقتِ اشاعت : April 7 – 2015