|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2015

لندن :  بلوچ قوم دوست رہنما حیربیار مری نے ’’گوادر میں سرمایہ کاری‘‘ کے موضوع پر دبئی میں منعقدہ کانفرنس کے حوالے سے کہا ہے کہ اقوام عالم بالخصوص امریکہ کو ریاست کی دوغلی پالیسیوں ،مذ ہبی دہشت گردی کو فروغ دیتے ہوئے خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے عمل و کردار اور بلوچ قوم و بلوچ سرزمین پہ اس کی جبری قبضہ گیریت کو پیش نظر رکھ کر ہی ریاست سے کسی قسم کا تعلق مرتب کرنا چاہئے ، کیونکہ اگر دنیا کی مقتدرہ قوتوں نے چین کی توسیع پسندانہ عزائم ، روس ، چین و ریاست کی مفاد پرستانہ قربت ،ریاست کی ماضی و حال میں افغانستان میں دہشت گردانہ کردار اور ہندوستان کو مذہبی دہشت گردی کے ذریعے غیرمستحکم کرنے کے عمل کو نظر انداز کرتے ہوئے بلوچ ریاست کی بحالی کے بغیر ’گودار‘‘ کے حوالے سے کوئی بھی منصوبہ یا معاہدہ کرلیا تو یہ عمل خطے میں مزید عدم استحکام و انتشار کا باعث بنے گا ، حیربیار مری نے مزید کہا ہے کہ بلوچ قومی ملکیت گوادر سنٹرل ایشاء ،جنوبی ایشاء، خلیج اور بحر بلوچ کے سنگم پہ واقع ہونے اور آبنائے ہرمز کے قریب تر ہونے کی وجہ سے معاشی ، دفاعی اور تجارتی اہمیت کا حامل ہے،گوادر کی اسی اہمیت کے پیش نظرریاست نے من مانی کرتے ہوئے چین سے اس کا سودا کرلیا ہے ، جو بلوچ قوم کیلئے ہرگزقابل قبول نہیں ،کیونکہ چین و ریاست اپنے مفادات کیلئے نہ صرف بلوچ آزادی پسندوں کے وجود کو ختم کرنے کے در پے ہیں بلکہ ریاست سیکولر بلوچ سماج میں مذہبی رجحانات کو تیزی سے فروغ دے رہا ہے، پاکستان ایک طرف تو بلوچ قومی وسائل کو بلوچوں کے منشاء و مرضی کے خلاف جبراً چین کے حوالے کررہا ہے دوسری طرف چین کیلئے ایک مضبوط و محفوظ تجارتی و معاشی راہداری کیلئے بلوچستان کے طول و عرض میں چین کے عسکری و مالی معاونت سے بلوچوں کے خلاف آپریشنوں میں تیزی لاتے ہوئے بلوچ نسل کشی کے شدت میں اضافہ کردیا ہے ، چین وریاست اس سعی لاحاصل میں مشغول ہیں کہ کسی طور بلوچوں کو دیوار سے لگاکر گوادر پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے کیونکہ اس وقت بلوچ آزادی پسند قوتیں ہی اس منصوبے کے سامنے رکاوٹ ہیں اگر چین ریاست کے اشتراک سے گوادر پورٹ اور گوادر تا کاشغر شاہراہ کو تکمیل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس سے خطے میں بڑی تبدیلیاں آئیں گے جو نا صرف بلوچ سماج میں منفی مردم نگارانہ تبدیلیاں لاکر بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کردیں گی بلکہ اس اہم ترین اسٹرٹیجک بندرگاہ پر قابو پانے کے بعد چین اس خطے میں اپنی تسلط مظبو ط کرکے تبت کے لوگوں کی طرح باقی اقوام کی زندگی بھی اجیرن کرنے کے ساتھ ساتھ ا س خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرتے ہوئے مزید بد امنی کا باعث بن جائے گا ۔ یہ عمل عالمی امن کو مزید انتشار و مشکلات سے دوچار کرنے کا موجب بن سکتا ہے، بلوچ قوم کیلئے تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ریاست کی دوغلی پالیسی کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ایک ارب ڈالر کے فوجی سازوسامان کی فروخت کی منظوری دی گئی ہے، اب یہ لازمی امر ہے کہ بارک اوبامہ انتظامیہ اور کانگریس کو اس کی منظوری کی توثیق سے قبل اس صورتحال کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہ فوجی سازو سامان خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے بجائے ایک جانب بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف استعمال ہونگے وہیں پاکستان اپنی مذہبی شدت پسندانہ پالیسی کی وسعت و مفادات کی خاطر ان عسکری سازوسامان کو افغانستان اور ہندوستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے اپنے اثاثے مذہبی دہشت گردوں کے ہاتھوں تھما دے گا ، بلوچ قوم دوست رہنما نے مزید کہا ہے کہ اوباما انتظامیہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے پر بھی نظر ثانی کرنا چاہیے، کیونکہ ریاست کی طرح ایران بھی گولڈ سمڈ لائن کے تحت بلوچستان کے مغربی حصے پہ قابض ہے، ریاست کی طرح بلوچ آزادی پسندوں سیاسی کارکنوں کی جبری اغواء اور انھیں سرعام پھانسی دینے جیسے جرائم میں ملوث ہے، اور جس طرح آج ریاست کے ایٹمی اثاثے مذہبی دہشت گردوں کی وجہ سے دنیا کیلئے خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں، اسی طرح ایران کی ایٹمی اثاثے بھی دنیا کو مزید خطرات سے دوچار کریں گے ، ایران اس وقت خطے میں مظلوم قوموں بشمولِ بلوچ ، آزربائیجان کے ترک ، الاحواض کے عرب ، کرد اور دیگر اقوام کیلئے خطرہ بنا ہوا اور انکے حقوق غصب کررہا ہے دوسری طرف امن عالم کیلئے ہمیشہ ایک دہشت کی علامت بنا ہوا ہے ، اس طرز کے دہشت گردانہ ریاست ہمیشہ سے امن عالم کوتہہ و بالا کرنے کا موجب بنتے رہے ہیں ، اب دنیا کو اس جانب متوجہ ہونا چاہیے کہ بلوچ ایک آزاد و خود مختار قوم تھا ، اس کی اپنی آزاد و خود مختار ریاست تھی، لہذا جس طرح دنیا کے مقتدرہ قوتوں نے عراقی قبضے کے خلاف کویت کی مدد کی اسی طرح ان عالمی طاقتوں کو پہل کرکے آزاد بلوچ ریاست کے قیام کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے، کیونکہ ایک آزاد بلوچ ریاست ہی خطے میں امن و استحکام کا ضامن ہے۔