|

وقتِ اشاعت :   April 11 – 2015

کوئٹہ ; کوئٹہ میں مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اللہ خان زہری نے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہاکہ مری معاہدے کی پاسداری مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں پر واجب ہے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح ہم نے فراخدلی کا مظاہرہ کرکے مخلوط حکومت کے ساتھ چلے امید ہے وہ بھی ہمارے ساتھ اسی طرح چلیں گے کیونکہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے اچھی امید رکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مری معاہدے میں صرف دو نام تھے ایک نام ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا تھا جبکہ دوسرا نام میرا ہے اور بلوچستان کا اگلا وزیراعلیٰ بلوچستان میں ہوں۔مسلم لیگ(ن) کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر،چیف آف جھالاوان و سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے بارے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کوآگاہ کردیا ہے ،اسپیکر بلوچستان کے بارے میں وزراعظم کوبتادیا گیا ہے جبکہ صوبائی مشیر برائے زکواۃعبدالماجد ابڑو کو عہدے سے ہٹادیا گیاہے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی،صوبائی وزیر خوراک میراظہار حسین کھوسہ ،صوبائی مشیر برائے فشریز حاجی اکبر آسکانی ،و وزیراعلیٰ کا مشیر برائے بین الصوبائی رابطہ، زکواۃ، عشر، حج واوقاف حاجی میرمحمد خان لہڑی ،ارکان صوبائی اسمبلی میر عاصم کرد گیلو ،طاہر محمود خان ،پرنس احمد علی ،مسلم لیگ کے سینیٹرز نوابزادہ میر نعمت اللہ خان زہری ،آغا شہباز درانی ،ڈپٹی میئر کوئٹہ محمد یونس بلوچ ،ڈسٹرکٹ چیئرمین خضدار آغا شکیل درانی ، مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدر ملک ابرار محمود،ضلع کوئٹہ کے صدر میر صلاح الدین رند، ملک امان اللہ مہترزئی ، ہاشم بڑیچ ، صوبائی سیکرٹری اطلاعات علاؤ الدین کاکڑ، چیئرمین بیت المال میرعطاء اللہ محمد زئی،حیدر خان اچکزئی ،سیف زہری اور دیگر مسلم لیگی رہنما بھی موجود تھے۔نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں پارٹی کے قائد و وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کے دوران انہیں سینٹ انتخابات میں پارٹی کے ارکان اسمبلی کی جانب سے ڈسپلن کی خلاف ورزی کے بارے میں آگاہ کیا جس پر وزیراعظم نے انکے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ کے مشیر برائے زکواۃ عبدالماجد ابڑو کوانکے عہدے سے فوری طورپرہٹادیا گیا ہے جبکہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی کے بارے میں وزیراعظم کو آگاہ کردیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی وزیر،رکن اسمبلی ،عہدیدار یا کارکن پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتا ہے اسکے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ مری معاہدہ اب اوپن ہوگیا اس بارے میں آپ نے وزیراعظم سے بات کی ہے کہ دوسرے مرحلے میں بلوچستان کا وزیراعلیٰ کون ہوگا تو نواب ثناء الہ زہری نے کہا کہ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو اخبارات میں شائع ہوچکا ہے تین پارٹیوں نے اس پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت پہلے مرحلے میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ ہے ہم انکے ساتھ بھر پورتعاون کر رہے ہیں اوردوسرے مرحلے میں میں وزیراعلیٰ ہوں گا ۔انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کی مدت جب پوری ہوجائے گی تو وہ ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔ جب ان سے دوبارہ پوچھا گیا کہ اس سے پہلے بھی جب جے ڈبلیو پی سے معاہدہ ہوا تھا تو پہلے مرحلے میں جو وزیراعلیٰ بنا تھا وہ بن گیا دوسرے مرحلے میں جس نے وزیراعلیٰ بنناتھا اسکی مدت پوری نہیں ہوئی اور نہ ہی انہیں ملا تو نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ وہ بلوچستان میں ایک بار ہوا ہے اب نہیں ہوگا جو معاہدہ ہوا ہے اس پر پوری طرح عملدرآمد کیا جائے گااور میں ہی وزیراعلیٰ ہوں گا۔اس سے قبل پارٹی کے ضلعی صدو، جنرل سیکرٹری اور کارکنوں کے اجلاس سے الگ الگ خطاب کرتے ہوئے نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ سینٹ کے انتخابات میں پارٹی نے حکمت عملی کے تحت حصہ لیا جس میں ہمیں کامیابی ہوئی لیکن بعض ارکان اسمبلی نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی جن کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پارٹی میں کارکن ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں انکے مسائل کے حل کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ پارٹی کے ضلعی صدور کی طرف سے پیش کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس ہر تین ماہ بعد ہوا کرے میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ اجلاس منعقد کریں گے پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء اور ارکان اسمبلی کو اس بات کا پابند کیا جائے گا کہ وہ صوبائی سیکرٹریٹ میں ہفتہ میں ایک دن بیٹھ کر کارکنوں کے مسائل سنیں اور جوانکے اختیار میں ہوں ان کے حل کیلئے احکامات جاری کریں ۔نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ وزرات اعلیٰ میرے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی میں چیف آف جھالاوان ہوں جو میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے میں نے نہ پہلے کبھی اصولوں پر سودے بازی کی ہے اور نہ آئندہ کروں گا جو بھی پارٹی ڈسپلن کے خلاف ورزی کریگا اسکے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت میں مشکلات ہوتی ہیں دو سال کے دوران ہمارے لئے مشکلات پیدا کی گئی ہیں ہمیں بعض جگہوں پر نظر انداز کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ جب صوبے میں مخلوط حکومت بن رہی تھی تو اسمبلی میں ہماری واضح اکثریت تھی لیکن پارٹی کے قائد میاں نواز شریف کے حکم کے حکم پر ہم نے لبیک کہتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیراعلیٰ بنایا مگر ہمیں نظر انداز کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت کی تشکیل کے وقت یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ سینئر وزیر کا سیکرٹریٹ الگ ہوا اوراسکے پاس وزیراعلیٰ کے آدھے اختیارات ہونگے مگر ابھی تک نہ تو مجھے کوئی دفتر اور نہ ہی کوئی اختیارات دیئے گئے ہیں مگر ہم نے ڈاکٹر مالک بلوچ کا مکمل ساتھ دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے وزراء کے پاس جتنے اختیارات ہیں وہ پارٹی کی خدمت کر رہے ہیں میں آپ لوگؤں کو یقین دلاتا ہوں کہ معاہدے کے تحت آنے والا وقت ہمارا ہے اورانشاء اللہ آپ کے مسائل حل کئے جائیں گے آپ جو چارٹر آف ڈیمانڈ مجھے دیا ہے میں نے اسے پڑھ لیا ہے اوراسے قبول کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کروں گا جو پورا نہ کرسکوں کیونکہ آپ میرے بھائی ہیں اور پارٹی کے اندر آپ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہے اقتدار آنی جانی چیز ہے اصل بات اصولوں کی ہوتی ہے ہمیں مشکلات ضرورت ملی ہیں جن کا ہم نے ڈٹ کرمقابلہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ صدور و جنرل سیکرٹری نے جو شکایت کی ہے ہمیں فنڈز نہیں ملی میں انہیں کہتا ہوں کہ پہلے انہیں جو فنڈز دیئے گئے ہیں وہ خرچ کریں۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں صوبائی سیکرٹریٹ کیلئے ڈپٹی میئر کوئٹہ محمد یونس بلوچ ،صوبائی وزیر خوراک اظہارحسین کھوسہ کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں وہ جلد ہی پارٹی کا سیکرٹریٹ قائم کریں تاکہ کارکنوں کے مسائل حل ہوسکیں۔