حکومت اور سیاسی پارٹیوں نے ایک دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان یمن کی خانہ جنگی میں غیر جانبدارا رہے گا البتہ سعودی عرب پر حملہ کی صورت میں پاکستان سعودی عرب کی امداد کرے گا اوراس کی سلامتی کا دفاع کرے گا۔ سعودی عرب نے با قاعدہ طورپر پاکستان سے مسلح افواج کے دستے ،بحری جنگی جہاز اور جیٹ اور بمبار طیارے طلب کیے تھے ۔ ہم نے پہلے بھی انہی کالموں میں اسکی مخالفت کی تھی کیونکہ پاکستان خود اپنی سلامتی کی جنگ لڑر ہا ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں اسکی فوج بھارت اور افغانستان کے سرحدوں پر ملک کا دفاع کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر شورش اور دہشت گردی کا سامنا ہے ۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اپنی افواج غیر ممالک کو روانہ کرے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کا یہ فیصلہ ہے کہ پاکستان یمن کی خانہ جنگی میں حصہ نہیں لے گا اور غیر جانبدار رہے گا۔ دوسری جانب حکومت پاکستان اسلامی ممالک اور اقوام متحدہ کے ذریعے یہ کوشش جاری رکھے گا کہ یمن میں جنگ بندی اور فریقین کو مذاکرات کے لئے آمادہ کریں ۔ پاکستان نے دورے پر آئے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے دفاع میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ اور ہر قسم کی کارروائی کرے گا اگر سعودی عرب کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے ۔ حکومت نے یہ دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا اور پانچ دنوں تک یمن کی صورت حال اور پاکستان کے کردار پر بحث کی ۔ حالیہ واقعات اور بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ فریقین میں بہت زیادہ تلخی اور دوری ہے جس سے خطرہ ہے کہ یہ جنگ زیادہ پھیلے گی ۔ شاید امریکا نے یہ بھانپ لیا ہے کہ ایران کے تیور اچھے نہیں ہیں اور وہ حوثی باغیوں اور علی عبداللہ صالح کے فوجیوں کی مدد کرتا رہے گا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا گیا ہے کہ ایران نے اپنے دو جنگی جہاز آبنائے باب المندب روانہ کیے ہیں ۔اس پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ امریکا ایسی صورت حال میں خاموش تماشائی بن کر نہیں رہے گا کہ ایران خطے کے ممالک کی سلامتی کے لئے خطرہ بنا رہے اور اپنے پراکسی کو یمن میں امداد پہنچاتا رہے ۔ ایران نے ترکی کے صدر کو دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا ہے کہ یمن کی جنگ بند نہیں ہوگی اور ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمن پر بمباری بند کردیں اور بیرونی (عرب)ممالک یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں ۔ دوسری جانب سعودی عرب نے یہ اعلان کیا ہے کہ یمن پر خصوصاً حوثی باغیوں اور علی عبداللہ صالح کے حامی افواج پر بمباری اس وقت تک جاری رہے گی جب تک حوثی باغی ہتھیار نہیں ڈالتے ۔ اس طرح سے دونوں فریقوں کا مؤقف انتہائی سخت ہے ایسی صورت حال میں ایران کسی بھی وقت جوابی کارروائی کر سکتا ہے جس کی وجہ سے ایران اور ایران مخالف اتحادی ممالک کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے ۔ ایسی صورت میں پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ ایران مخالف فوجی اتحاد میں نہ صرف شامل ہو بلکہ وہ فوجی کارروائیوں میں بھرپور حصہ لے ۔ ایران پاکستان دونوں ہمسایہ ممالک ہیں اور 900کلو میٹر طویل مشترکہ سرحد رکھتے ہیں جہاں پر کشیدگی مکمل جنگ میں بدل سکتی ہے یہی حال ترکی اور افغانستان کا ہوگا۔ امریکا کی سربراہی میں ایران کے خلاف تمام ممالک فوجی کارروائی کر سکتے ہیں۔ توقع ہے کہ ایران ایسی صورت حال سے بچنے کی کوشش کرے گا کہ اس کا سامنا بیس ممالک کے امریکا کی سربرا ہی میں اتحاد سے ہو اور وہ صرف حوثی باغیوں کے لیے اپنی سلامتی قربان کردے ۔اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند نہ کرے۔
یمن کا تنازعہ ‘ ایک صحیح فیصلہ
وقتِ اشاعت : April 13 – 2015