ڈاکٹر عمران فاروق قتل کے مقدمے میں ایک نیا پہلو سامنے آیا ہے جس کے پاکستان کی سیاست پر دوررس اثرات پڑیں گے۔ سیکورٹی افواج نے ایک شخص معظم علی خان کو اس کے بھائی سمیت گرفتار کیا ہے ۔ ان پر الزام ہے کہ اس نے متحدہ کے رہنماؤں ‘ خصوصاً حماد صدیقی کے کہنے پر دو قاتلوں کی مدد کی جنہوں نے مبینہ طورپر ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے ۔ معظم علی خان ایک بزنس مین ہیں ۔ انہوں نے ان دونوں نوجوانوں کے نہ صرف سفری اخراجات برداشت کیے بلکہ ان کو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے تمام اخراجات دینے کا وعدہ کیا ۔ ان کی گارنٹی پر برطانوی سفارت خانے نے ان دونوں ملزمان کو ویزے جاری کیے ۔ یہ دو نوجوان اطلاعات کے مطابق ’’ سرکاری مہمان ‘‘ ہیں اور باقاعدہ گرفتار نہیں ہوئے ،وقت آنے پر یا ضرورت پڑنے پر ان دو ملزموں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ ان کو وعدہ معاف گواہ بنایا جائے ۔ بہر حال بنیادی مقدمہ متحدہ کے رہنما الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں پر قائم کیا جائے گا۔ ان میں حماد صدیقی ‘ معظم علی خان اور دوسرے ملزمان شامل ہوں گے۔ متحدہ کے اندر حکومتی حلقوں کی موجودگی کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کرنے کے بعد دونوں قاتل لندن سے فرار ہوئے ۔ ایک ایشیائی ملک سے ہوتے ہوئے وہ کراچی آئے، ان کو کراچی ائیر پورٹ پر جہاز سے اترنے کے بعد گرفتار کرلیا گیا تھا ۔ سیکورٹی اداروں کو اس کی پہلے سے اطلاع تھی کہ دونوں قاتل کراچی پہنچ رہے ہیں ۔ ان کے استقبال کرنے کیلئے آنے والے متحدہ کے اراکین پریشان ہوگئے جب دونوں قاتلوں کا سراغ نہ ملا حالانکہ ان کو جہاز سے اترتے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا اور ان کو کسی محفوظ مقام پر رکھا گیا تاکہ پولیس اور دوسرے اداروں کو اس کی خبر نہ ہو ۔ محکمہ داخلہ سندھ پر سالوں متحدہ کی حکمرانی رہی ہے لہذا پولیس کو مطلع کرنا خطر ناک ثابت ہوسکتاتھا ۔ پانچ سال بعد عمران فاروق قتل کے مقدمہ میں زبردست پیش رفت ہوئی ہے اور تفتیشی اداروں کے ہاتھ اہم ترین ثبوت آگئے ہیں ’ اسکاٹ لینڈ یارڈ اور وزارت داخلہ کے درمیان زبردست باہمی تعاون کی وجہ سے یہ تمام ثبوت حکومت کے ہاتھ آئے ہیں جن کو حکومت برطانیہ اور خصوصاً اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ساتھ شئیر کیا گیا ہے ۔ اس بات کی تصدیق وزیر داخلہ نثار علی خان نے اخباری نمائندوں کے سامنے کی ۔ مقدمہ بہر حال لندن میں چلے گا اور پاکستان اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے اور خصوصاً ایک نامور پاکستانی شہری کے قتل کے مقدمہ کی زبردست پیروی کرے گا تاکہ ملزمان کو سخت سے سخت سزا ملے ۔ عوام بھی حکومت پاکستان سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں پورے کرے گا تاکہ بیرون ملک تمام پاکستانیوں کی زندگی محفوظ رہے اور کوئی گینگ یا گروہ کسی بھی وجہ سے پاکستانیوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہ ڈالے ۔ ظاہر ہے کہ مقدمے کا مرکزی ملزم الطاف حسین ہوسکتا ہے ۔ اس کی گرفتاری کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک بھونچال آئے گا۔ آئے دن ان کے لندن سے تقاریر اور بیانات اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت نہیں بنیں گے۔ ان کے بعد متحدہ کی قیادت میں کوئی دوسرا شخص نظر نہیں آتا جو ان کا نعم البدل ہو ۔ اس طرح سے متحدہ لیڈر شپ کے بحران کا شکار ہوسکتی ہے ۔ زیادہ تر لوگوں کی توقعات یہ ہیں کہ اس میں گروہ بندی زیادہ تیزی کے ساتھ ہو سکتی ہے خصوصاً متحدہ کے وہ رہنما ء اور کارکن جن کے خلاف سنگین الزامات اور مقدمات ہیں وہ زیادہ پریشان ہوں گے کیونکہ ان کو متحدہ کی موجودہ حمایت حاصل نہیں ہوگی ۔ صرف عمران فاروق قتل کا مقدمہ نہیں دیگر سنگین قسم کے الزامات اور مقدمات ہیں ان میں صولت مرزا کا نیا بیان جو عدالت کے سامنے ہوگا۔ بلدیہ کالونی کا سانحہ جس میں 259افراد کو زندہ جلا دیا گیا اور درجنوں دوسرے مقدمات جو متحدہ کی یک جہتی کو تباہ کر سکتے ہیں اور بعض رہنماؤں کو مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی پارٹی میں شامل ہو کر پناہ حاصل کریں ۔ بہر حال متحدہ کے خلاف بڑے پیمانے پر بغاوت کا مقدمہ درج ہوسکتا ہے اور پارٹی پر نیپ کی طرح پابندی لگ سکتی ہے ۔وجہ یہ ہے کہ متحدہ کے خلاف بڑی تعداد میں سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں سب سے بڑا مقدمہ 259افراد کو زندہ جلانے اور متحدہ کے سیاسی ہیڈ کوارٹرز کو اسلحہ خانہ بنانے ‘ کارکنان کوبیرون ملک گوریلا تربیت حاصل کرنے لے لیے بھیجنے کے الزامات شامل ہوسکتے ہیں ۔ درجنوں گرفتار شدگان اس سلسلے میں اپنے اقبالی بیانات ریکارڈ کراچکے ہیں۔ NROکے تحت متحدہ کے خلاف ساڑھے آٹھ ہزار مقدمات واپس ہو چکے ہیں ۔ ان میں 50سے زائد مقدمات خصوصاً قتل اور اقدام قتل کے الطاف حسین کے خلاف تھے ۔
متحدہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ ؟
وقتِ اشاعت : April 17 – 2015