|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2015

حکومت پاکستان کے بعض فیصلے اس وقت درست ثابت ہوئے جب اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے یمن پر ایک بھرپور قرار داد پاس کی ۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ حوثی باغیوں نے طاقت کے زور پر ملک کے اندر ایک قانونی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا بلکہ ملک کے صدر اور وزیراعظم کو گرفتار کرکے گھروں میں نظر بند کردیا تھا ۔اس دوران حوثی باغیوں پر الزام ہے کہ فوجی اڈوں اور حکومت کی اکثر عمارتوں پر قبضہ بھی کر لیا اور فوجی افسران بشمول فوجی جرنیلوں اور ان کے اہل خانہ سے بھی بد سلوکی کی گئی ۔ ان حرکات سے معلوم ہوتا تھا کہ ملک پر لشکر کشی کی گئی تھی اور مسلح لشکر نے ملک اور اس کے اداروں پر قبضہ کر لیا تھا چنانچہ انہی شواہد کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے ایک زبردست قرار داد پاس کی جس میں حوثی باغیوں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف پابندیاں لگائی گئیں ۔سابق صدر علی عبداللہ صالح اور ان کے صاحبزادے پر بھی بین الاقوامی پابندیاں لگائی گئیں اور ان کے تمام اثاثے منجمد کر دئیے گئے ۔ اقوام متحدہ نے حوثی باغیوں کو اسلحہ کی ترسیل پر بھی پابندی لگائی ۔ان تمام باتوں سے صرف ایک بات اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے ثابت کی کہ حوثی باغیوں کا یمن کی حکومت پر قبضہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، اس لئے ان پر ہوائی حملے قانونی اور جائز قرار دئیے جا سکتے ہیں۔ حوثی باغیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں اور قانونی حکومت بحال کریں یا قانونی حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ ان تمام باتوں سے یہ تاثر ملتاہے کہ حکومت پاکستان کا فیصلہ درست تھا اور اس نے غیر قانونی حکومت یا قبضہ کی حمایت نہیں کی ۔ پاکستان دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر حوثی باغیوں اور ان کے حمایتیوں پر دباؤ ڈالے گا کہ یمن کی قانونی حکومت کو بحال کیا جائے یا مذاکرات کے ذریعے یمن کے معاملے کا ایک متفقہ حل نکالا جائے۔ ایران واحد ملک رہ گیا ہے جو حوثی باغیوں کی اب تک حمایت کررہا ہے ۔ ابھی تک عرب اتحادی ممالک یہ ثابت نہیں کر سکے کہ ایران یمن کی جنگ میں مداخلت کررہا ہے تاہم اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ایران نے جنگ سے پہلے حوثی باغیوں کی زبردست پیمانے پر مدد کی تھی تاکہ وہ ملک پر قبضہ کر سکیں لیکن حالیہ دنوں میں یمن کی فضاؤں میں اور سمندری حدود میں عرب اتحادی ممالک کا قبضہ ہے، پورا یمن گھیرے میں ہے اور ایران نے اس گھیرے کو توڑنے کی کوشش نہیں کی ۔سمندری حدود پر مصر اور امریکا کے بحری جنگی جہاز تعینات ہیں اور ایرانی بحریہ کے دو جہازوں پر زبردست طریقے سے نگاہ رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں ایران سمندر کے راستے حوثی باغیوں کو رسد پہنچانے کی کوشش تو نہیں کررہا ۔ یمن پر فضائی بمباری دن رات جاری ہے اور اس بات کی گنجائش نہیں کہ سینکڑوں جہاز وں کی موجودگی میںیمن کی فضاؤں کی خلاف ورزی کی جائے۔ پاکستانی حکومت کا یہ فیصلہ درست تھا کہ یمن کی جنگ میں ملک کوملوث نہ کیا جائے اور سعودی عرب کی اخلاقی‘ قانونی ‘ سفارتی اور سیاسی حمایت بھرپور انداز میں جاری رکھی جائے تاوقتیکہ حوثی باغی ہتھیار نہ ڈال دیں یا مذاکرات کے ذریعے اقتدار قانونی حکومت کے حوالے نہ کریں ۔ساری نگاہیں اس وقت ایران پر ہیں، ایران نے ابھی تک صرف ہوائی حملے بند کرنے اور جنگ بندی کامطالبہ کیا ہے ۔ ایران موجودہ بین الاقوامی صورت حال میں اس قابل نہیں ہے کہ وہ یمن کے باغیوں کی فوجی مدد کر سکے جلد یا بدیر ان کی شکست یقینی ہے ۔اگر ایران کے ایک پراکسی کو فوجی شکست ہوجاتی ہے تو دوسرے پراکسی مہم جوئی سے گریز کریں گے ۔ا یران دوسرے ملکوں کے معاملات یا شیعہ انقلاب کو دوسرے سنی اور عرب ممالک کو بر آمد کرنے سے باز رہے گا۔