کوئٹہ شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔ اس شہر کو بے دردی سے لوٹا گیا ہے اس کے وسائل تقریباً ختم ہونے کو ہیں ۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر لوگوں کو پینے کا پانی نصیب نہیں ۔ گنجان آبادی اور تنگ سڑکیں جو چندلاکھ شہریوں کیلئے بنائی گئیں، اب وہ تنگ اور چھوٹی پڑی گئیں ہیں ۔ رکشوں کی بہتات نے کسی حد تک ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کردیا مگر ٹریفک کے لئے شدید مسائل کھڑے کیے ۔ ایک حکومت ہے جو بنیادی معاملات پر توجہ دیتی نظر نہیں آتی۔ ٹریفک کے معاملات زیادہ سنگین ہوتے جارہے ہیں ،ایک وی آئی پی کی آمد سے پورا شہر مفلوج ہوجاتا ہے اور کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ جاتی ہے اس لئے اللہ کا واسطہ دے کر وی آئی پی حضرات سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی تمام تر مصروفیات کینٹ کے علاقے تک محدود کردیں تو لاکھوں انسانوں، اسکول کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو غیر ضروری مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔ وقت اور وسائل کا بہترین ذریعہ ایک ماس ٹرانزٹ نظام ہے ۔کوئٹہ میں دوا طراف سے روزانہ لاکھوں لوگ جنوب اور شمال کی جانب سے روزگار کے لئے کوئٹہ آتے ہیں۔ ہم نے انہی کالموں میں حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ریل کی پٹٹری پر صرف چند ایک مسافر اور کار گو ٹرینیں گزرتی ہیں اور 22گھنٹے سے زیادہ عرصہ ریلوے لائن خالی پڑی رہتی ہے۔ چند ایک انجن درجنوں مسافر ویگن اگر دونوں جانب چلائی جائیں تو کوئٹہ کے شہریوں کو سستی ٹرانسپورٹ کا نظام مل جائے گا جس سے وقت کی بچت ہوگی اور لوگ جلد سے جلد اور بغیر کسی پریشانی کے گھروں سے کوئٹہ شہر کے مرکز تک پہنچ جائیں گے۔ یہ ریل سروس مستونگ سے شروع ہوکر کوئٹہ ائیر پورٹ تک آئے تاکہ دور دراز سے لوگ آسانی سے کوئٹہ ائیر پورٹ پہنچ سکیں۔ گزشتہ 70 سال سے محکمہ ریلوے اور حکومت بلوچستان ان ضروری معاملات کو نظر انداز کرتے رہے ہیں ۔ ٹرین کی پٹٹری یایلوے لائن موجود ہے صرف انجن اور بوگیاں لا کر کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان شٹل ٹرین سروس شروع کی جاسکتی ہے ۔ ایک ٹرین کئی ہزار مسافر منٹوں میں کوئٹہ کے مضافاتی علاقوں سے کوئٹہ شہر تک انتہائی آسانی سے پہنچا سکتی ہے ۔ اس سے ٹریفک جام ‘ ٹریفک کی سست روی اور لوکل بس مالکان کی بلیک میلنگ سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا ملے گا۔ ریلوے کے وزیر کوئٹہ صرف سیاست کرنے آتے ہیں ریلوے کے وزیر کو اپنے محکمے سے دلچسپی نہیں ، وہ اپنے پارٹی کے جائز اور ناجائز مفادات کا تحفظ کرنے آئے تھے ۔انہوں نے پنجاب جو ان کا اور ان کے پارٹی کا حلقہ انتخاب ہے وہاں پر مسافروں کو کافی سہولیات پہنچائیں ہیں مگر وہ یہی خدمات بلوچستان کے عوام کے لئے کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ بلوچستان میں کئی ٹرینیں بند ہوچکی ہیں سروس انتہائی خراب ہے ۔ ریلوے لائن کی دیکھ بھال نہیں ہے ۔ انگریز نے کوئٹہ سے ژوب تک ریلوے لائن بچھائی تھی وہ بھی خستہ حال ہے ۔ کرپٹ وزراء نے ریلوے ٹریک پر سڑک تعمیر کرکے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کیا ۔اس طرح سے کوئٹہ زاہدان لائن بھی بند ہے۔ لوگ مذاقاً کہتے ہیں کہ وہ پیدل چل کر ٹرین سے پہلے اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں کیونکہ ٹرین انتہائی سست رفتاری سے چلتی ہے۔ ایران نے زاہدان اور کرمان کے درمیان ریلوے لائن ڈال دی اس طرح سے ریلوے نظام کو پوری دنیا سے منسلک کردیا ۔ مگر پاکستان حکومت نے تفتان ‘ کوئٹہ کے درمیان ریلوے لائن کو بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں بنایا کہ پاکستان کے لوگ دنیا بھر کا سفر ریل کے ذریعے کرسکیں یا دنیا کے ساتھ تجارتی روابط اور تجارت کو ریلوے کے ذریعے فروغ دیں ۔ اس سے ظاہر ہے کہ حکومت پاکستان اور ریلوے کے وزیر کو بلوچستان میں ریلوے کی ترقی سے دلچسپی قطعاً نہیں ہے ۔ اگر یہ خطہ پنجاب کا حصہ ہوتا تو یہ چند ماہ میں دنیا کا بہترین ریلوے نظام عوام الناس کے لئے بن جاتا ۔ بد قسمتی سے یہ خطہ بلوچستان کا ہے اس لئے اس کو نظر انداز کرنا انتہائی ضروری اور قومی مفادات کے عین مطابق ہے۔
کوئٹہ کے لئے ماس ٹرانزٹ
وقتِ اشاعت : April 19 – 2015