بلوچستان ملک کا وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہے اوراس کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ ٹرانسپورٹ پر مافیا کے قبضہ کوقانونی اور اخلاقی طورپر تسلیم کیا گیا ۔ یہ مافیا کی مرضی ہے کہ وہ مسافروں سے کس طرح کا سلوک روا رکھتا ہے ، کس حد تک لوٹ مار کرتا ہے ۔ بہر حال حکومت ایک تماشائی کی حیثیت سے یہ تمام حرکتیں دیکھتی رہی اور اس میں مداخلت کی کوشش جان بوجھ کر نہیں کی گئی۔ حالیہ دنوں میں پیٹرول کی قیمتوں میں زبردست کمی آئی پیٹرول کی قیمت پچاس فیصد تک کم ہوگئی یا گر گئی مگر مجال ہے کہ ٹرانسپورٹ مافیا نے اس کا فائدہ لوگوں تک پہنچنے دیا ۔ بڑا دلچسپ جواب آیا کہ ہم تو پیٹرول اور ڈیزل استعمال ہی نہیں کرتے ۔ ہم سی این جی استعمال کرتے ہیں بھلا یہ بتایاجائے کہ کوئٹہ اور حب کے علاوہ بلوچستان کے کس مقام پر سی این جی کے اسٹیشن ہیں ۔ لہذا انہوں نے بسوں اور ٹرکوں کے کرائے کم کرنے سے انکار کردیا عوام الناس کو اس کا کوئی ریلیف نہیں ملا بلکہ انہوں نے عوام کو ریلیف دینے سے انکار کردیا، حکومت بچاری بے بس اور لاچار نظر آئی ۔ کوئی تادیبی کارروائی نہ کر سکی ۔ حالیہ دنوں وزیر ٹرانسپورٹ نے ان تک محنت کی اور کوشش کی کہ پچاس سال پرانے بسوں کے روٹ پرمٹ منسوخ کیے جائیں اور نئے لوگوں کو دئیے جائیں تاکہ نئی اور کار آمد بسیں مختلف روٹس پر چلائی جائیں ،بعض بسوں کے روٹ پرمٹ مسنوخ ہوگئے ۔ بعض مالکان نے بسوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن دو جانب سے اتنے بڑے روٹس ہیں کہ بسوں کی تعداد کم ہے ا ور مسافروں کی تعداد زیادہ ہے اس لئے مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھرا جاتا ہے ۔ چونکہ روٹس پرمٹ مقامی اور با اثر افراد کے نام پرہیں مگر ان کو بد نام ٹھیکے دار چلا رہے ہیں اس لئے ٹریفک پولیس اور مقامی انتظامیہ کو مختلف بہانوں سے پریشان کیا جاتا ہے کہ وہ ان عمر رسیدہ بسوں کا چالان نہ کریں بلکہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھی چالان نہ کریں ۔ اگر چالان کیا گیا تو آئے دن ہڑتال ‘ احتجاج اور سرکاری ملازمین خصوصاً انتظامیہ کے لوگوں پر دباؤ کہ ان کا چالان ہی نہ کریں کیونکہ بلا وجہ یہ ہڑتالیں کرتے ہیں اور احتجاج کرتے ہیں ۔بعض دفعہ تو سیاسی پارٹیاں بھی ان کے ناجائز مفادات کی حفاظت میں میدان میں اتر آتی ہیں ۔بہر حال وزیر ٹرانسپورٹ کی یہ کاوشیں قابل تعریف ہیں کہ وہ ٹرانسپورٹ کے نظام کو درست کرنے اور کوئٹہ کے لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات فراہم کر نے کی تگ و دو کررہے ہیں۔ سریاب اور ائیر پورٹ روٹس پر جب تک تجارت پیشہ اور پروفیشنل حضرات نہیں آئیں گے اس وقت تک ان روٹس پر مافیا کا راج بر قرار رہے گا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی پارٹیاں انتظامیہ کی امداد کریں تاکہ لوگو ں کو زیادہ سے زیادہ راحتیں ملیں ۔ اسی طرح انٹر سٹی بس سروس کا بھی حال خراب ہے ۔یہاں بھی کرایوں میں من مانی جاری ہے حکومت ان کرایوں کو مقرر نہیں کرتی ۔حکومت کو چائیے کہ وہ ان روٹس پر کرایہ مقرر کرے اور موجودہ بسیں جو انسانی زندگی کے لئے انتہائی خطر ناک ہیں،حادثات کی صورت میں ان بسوں میں کوئی ہنگامی راستہ نکلنے کے لیے نہیں ہے ۔ چنانچہ حادثات کی صورت میں مسافروں کی موت یقینی ہے اس کے علاوہ خداہی ان کو موت سے بچا سکتا ہے ان تمام بس مالکان کو حکم دیا جائے کہ تمام بسوں میں دوسرا دروازہ یا ہنگامی صورت میں باہر نکلنے کا راستہ ضرور رکھا جائے ۔حالیہ حادثات میں زیادہ سے زیادہ جانیں صرف اسی وجہ سے ضائع ہوئیں کہ مسافروں کیلئے ہنگامی طورپر نکلنے کا راستہ نہیں تھا ۔ ایک دروازہ جو حادثہ کے وقت بند ہوجاتا ہے ۔ اب کسی نئی بس کو روٹ پر چلنے کی اجازت نہ دی جائے اگر اس میں دوسرا ہنگامی راستہ نکلنے کا نہ ہو اور دوسری بات انٹر سٹی بس کے کرایوں کو حکومت مقرر کرے نہ کہ بس مالکان۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا فائدہ صرف اسی وقت لوگوں کو مل سکتا ہے جب حکومت یا شہری انتظامیہ ان کا کرایہ مقرر کرے ۔
بہتر ٹرانسپورٹ کا نظام
وقتِ اشاعت : April 20 – 2015