کچھی کینال بلوچستان کا ایک بہت پرانا معاشی منصوبہ ہے بلوچ لیڈر شپ نے اس کی تعمیر کے لئے ماہرین کو پانی کے ذرائع تلاش کرنے کی ہدایات دیں ۔ چنانچہ دریائے سندھ پر مختلف مقامات پر بند باندھنے اور بیراج کی تعمیر پر غور کیا گیا جو وفاق اور پنجاب حکومت کو منظور نہیں تھے۔ بلوچستان کے گورنر مرحوم غوث بخش بزنجو نے سیکرٹری آبیاشی کو یہ ہدایات جاری کیں تھیں کہ منصوبہ تیار کیا جائے تاکہ وہ وزیراعظم بھٹو اور پنجاب کے حاکم اعلیٰ غلام مصطفیٰ کھر سے خود بات کریں گے۔ 1991ء میں صوبوں کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا ۔میاں شہباز شریف نے اہم کردار ادا کیا اور صوبوں کے درمیان مفاہمت کراکر پانی کی تقسیم کا معاہدہ چاروں صوبوں کے درمیان ہوگیا ۔ اس معاہدے کی رو سے بلوچستان کو دس ہزار کیوسک اضافی پانی خصوصاً سیلاب کا پانی ملے گا اس معاہدے کے بعد یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ کچھی کینال کو اب دریائے سندھ سے پانی ملے گا ۔چنانچہ منصوبہ پہلے سے موجود تھا اور پانی کی تقسیم کا معاہدہ صوبوں کے درمیان بھی ہوگیا تھا ۔ صرف وفاقی حکومت کو کچھی کینال کی با قاعدہ منظوری اور وسائل فراہم کرنے تھے ۔ تبدیل شدہ یا ترمیم شدہ کچھی کینال سات لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین آباد کرے گا حالانکہ کچھی کے علاقے میں قابل کاشت اور زرخیز زمین ستر لاکھ ایکڑ ہے ۔ ویسے بلوچستان میں کاشت کاری کے لئے دو کروڑ ایکڑ زمین موجود ہے ۔ اب وزیر منصوبہ بندی و ترقیات نے بلوچوں کو یہ بڑی خوش خبری سنائی ہے کہ آئند ہ ہفتوں میں کچھی کینال کے پہلے مرحلے کاکام مکمل ہونے والا ہے اور بگٹی قبائلی علاقے میں ایک لاکھ ایکڑ زمین اس منصوبے کے تحت آباد ہوگی ۔ بہر حال یہ خوشی کی بات ہے کہ خدا خدا کرکے دو کروڑ ایکڑ زمین میں سے ایک لاکھ ایکڑ زمین آباد ہوگی ۔ کچھی کینال کی باقی چھ لاکھ بیس ہزار ایکڑ زمین کب آباد ہوگی ، یہ وزیر موصوف نے نہیں بتایا ۔ بہر حال پہلا مرحلہ صوبوں کے درمیان معاہدے کے 24سال بعد مکمل ہورہا ہے ۔ باقی چھ لاکھ ایکڑ کے لئے بلوچوں کو مزید سو سال انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان کے وسائل بلوچستان کی ترقی کے لئے نہیں ہیں ۔ویسے بھی لوگوں کو یہ عام شکایات ہیں کہ بلوچستان کا ہر میگا پروجیکٹ تیس سال میں مکمل ہوتا ہے، ہر منصوبے کیلئے لوگ تیس سال انتظار کرتے ہیں ۔ اسکے برعکس لاہور ‘ راولپنڈی موٹر وے کے منصوبے 34ارب روپے کی مالیت سے صرف آٹھ ماہ میں مکمل ہوا ۔ بلوچستان میں درجنوں ایسے بڑے بڑے منصوبے ہیں جن کی طرف حکمرانوں کی نگاہیں نہیں جاتیں۔ صوبائی حکمرانوں کو ہمیشہ اپنے ذاتی اور مالی مفادات عزیز رہے اور انہوں نے کبھی بھی وفاق پر صوبائی منصوبے مکمل کرنے کے لئے دباؤ نہیں ڈالا ۔ اگر بلوچستان کی دو کروڑ ایکڑزمین آباد ہوجاتی ہے تو بلوچستان نہ صرف غذائی اجناس کے معاملے میں خود کفیل ہوگا بلکہ افغانستان اور ایران کے ملحقہ علاقوں کو بھی غذائی اجناس سپلائی کرے گا ۔یہ افسوس کی بات ہے کہ وفاقی ذمہ دار حضرات بلوچستان کے منصوبوں پر تاخیر سے عمل کرتے ہیں اور جان بوجھ کر وسائل فراہم نہیں کرتے تاکہ وہ جلد سے جلد مکمل نہ ہوں اور بلوچستان بھی ترقی یافتہ صوبوں کی قطار میں کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوجائے ۔ پنجاب میں چولستان کے علاوہ کہیں زمین نہیں ہے لیکن بلوچستان میں وسیع علاقے موجود ہیں جہاں پر ڈیم بنائے جا سکتے ہیں اور زمین کو زیر کاشت لایا جا سکتا ہے ۔ پٹ فیڈر کا بنیادی منصوبہ یہ تھا یہاں پر سابق فوجیوں کو سکھر اور حیدر آباد بیراج کے طرز پر آباد کرنا تھا ۔ وہ منصوبہ ناکام ہوا تو وفاقی حکومت نے دلچسپی لیناچھوڑ دی ۔ اس لئے شاہ پور کے ریگستانی علاقے سے پٹ فیڈر گزرتا ہے تو پانی زمین کے نیچے چلا جاتا ہے اور یہ پانی نصیر آباد یا صحبت پور ضلع میں سیم اور تھور کا سبب بن جاتا ہے ۔ صرف اس علاقے میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑز مین سیم اور تھور میں تباہ ہوگئی۔ اگر اس تیس میل کے حصے کو سیمنٹ سے بنایا جائے تو نہ صرف تین سو کیوسک پانی کی بچت ہوگی بلکہ صحبت پور کی سیم اور تھور کی زمین کو دوبارہ قابل کاشت لایا جا سکتاہے ۔
کچھی کینال ‘ غیر ضروری تاخیر
وقتِ اشاعت : April 20 – 2015