آئے دن مختلف مفادات کے گروپ احتجاج کرتے رہے ہیں ۔ احتجاج حکومت کے خلاف ہوتا ہے مگر اذیتیں عوام کو پہنچائی جاتی ہیں ۔ اس میں سب سے دلچسپ بات انتظامیہ کی لا تعلقی ہے جس نے کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ شاید حکومت انتظامیہ سیاسی حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی ہے ان کی طرف سے جو حکم نامہ ملے گا صرف اسی پر عمل درآمد ہوگا۔ ان احتجاجات میں سڑکوں کا بند کرنا ایک لازمی امر ہے۔ سڑکیں بند نہ کرنے اور شاہراہوں پر رکاوٹیں نہیں ڈالنے سے احتجاج اور جلوس کی اہمیت کم ہوتی ہے ۔ چند لوگ جلوس میں شامل ہوتے ہیں اور وہ پوری شاہراہ بند کرتے ہیں کسی گاڑی کوگزرنے نہیں دیتے ۔ آج کل فرقہ پرست گروہ زیادہ مستعد دکھائی دے رہے ہیں اور اکثر و بیشتر ان کے جلسہ اور جلوسوں میں ہتھیار بند بڑی تعداد میں ہوتے ہیں اسلحہ کی نمائش کرتے ہوئے یہ عوام الناس خصوصاً خواتین ا ور بچوں کو خوفزدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ ٹریفک کی روانی کے دوران ان کو راستہ نہ ملنے پر وہ اپنی مشین گن بندوقیں عام لوگوں پر تان لیتے ہیں اس طرح سے وہ تمام لوگ جو اس جگہ موجود ہوتے ہیں وہ خوفزدہ ہوجاتے ہیں ۔ یہی گروہ لاؤڈ اسپیکروں کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے پر امن ماحول میں شدت کے ساتھ خلل ڈالتے ہیں پہلے تو ان تمام گروہوں کو جلوس نکالنے کی اجازت نہیں ہونی چائیے کیونکہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلتی ہے اور یہ شدت پسند امن عامہ کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں اگر کوئی گروہ جلسہ اور جلوس نکالنے کی اجازت لینے آئے تو ان کو یہ بتا دیا جائے کہ وہ کسی قیمت پر بھی عوام الناس کی مشکلات میں اضافے کا سبب نہیں بنیں گے۔ جلوس سڑک کے ایک کونے سے جائے اور ٹریفک کی روانی میں خلل نہیں پڑنا چائیے جلسہ شارع عام پر نہ ہو، دور مقام پر ہو ‘ پارک میں ہو ‘ اسٹیڈیم میں ہو تاکہ ہر گروہ کو اپنی مقبولیت کا صحیح اندازہ ہو ۔ مظاہرے کے لئے ایک خاص جگہ مقرر کیا جائے سب سے بہترین جگہ ریلوے ہاکی اسٹیڈیم ہے سارے مظاہرے اس کھیل کے میدان میں ہوں ۔ مظاہرین کو سڑکوں پر احتجاج کرنے کی اجازت نہ دی جائے ، خلاف ورزی کی صورت میں قانون پر چابک دستی سے عمل کیاجائے تاکہ امن عامہ میں خلل واقع نہ ہو ۔ ٹریڈ یونین کے لوگ اور محکمہ تعلیم کے اساتذہ مستقل طورپر بلیل میلنگ کرتے ہیں اور آئے دن سڑکوں پر ہوتے ہیں احتجاج کرتے ہیں مظاہرہ کرتے ہیں ۔ مظاہرہ کرنا احتجاج کرنا ان کا حق ضرور ہے مگر لوگوں کو اذیتیں پہنچانا ان کے حقوق میں شامل نہیں ہے ۔ لہذا ان سے کہا جائے کہ وہ مظاہرے ضرور کریں سڑکیں بند نہ کریں ۔ ٹریفک کی روانی میں خلل نہ ڈالیں ۔ اگر جلوس اجازت لے کر نکالیں تو بھی معمولات زندگی پر اس کا اثر نہیں پڑنا چائیے جلوس سڑک کے ایک کونے سے گزرے اور پوری سڑک کو بند کرنے کی اجازت نہیں ہونی چائیے ۔ وزیراعلیٰ صاحب بھی اس بات پر ضرور توجہ دیں اور انتظامیہ کو یہ ہدایات ہمیشہ کیلئے جاری کریں کہ کسی بھی گروہ کو سڑکیں اور شاہراہیں بند کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیاجائے اور سزائیں دی جائیں ۔اگر ایک بار ایسا کیا گیا تو کوئی شخص یا گروہ سڑکیں بند کرنے اور ٹریفک کے نظام میں خلل ڈالنے سے باز رہے گا۔ نوکر شاہی پر بھی لازم ہے کہ وہ مختلف مفادات کے گروپوں کی سرپرستی چھوڑ دے اور قانون کی بالادستی کے لئے کام کرے کم سے کم لوگوں کو اذیتوں سے بچائیں ۔
احتجاج ‘ اذیتوں کا رخ عوام کی جانب
وقتِ اشاعت : April 23 – 2015