|

وقتِ اشاعت :   April 25 – 2015

خواہ حکومتی فیصلے ہوں یا مختلف حلقوں کی جانب سے احتجاج ،دونوں کا مقصد ایک ہی ہے وہ ہے عوام الناس کے مشکلات میں اضافہ کرنا۔ ان کو ہر طرح سے پریشان کرنا ان کو ہراساں کرنا۔ پہلے تو بس اڈہ منتقل کرنے کا فیصلہ حکومت کی طرف سے کو تاہ نظری کا ثبوت ہے اور اس میں واضح طورپر مفاد پرست گروپوں کا مفاد نظر آتا ہے ۔کوئی شخص بس اڈے کی منتقلی کے فوائد بیان نہیں کرسکتا البتہ پراپرٹی ڈیلرز اور دکانداروں کی صرف اس وقت چاندی ہوگی جب بس اڈہ مکمل طورپر ہزار گنجی منتقل ہوجائے گا۔ کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی مفاد پرستوں کا ہمیشہ سے گھڑ رہا ہے مفاد پرست اپنے مفادات کا تحفظ کیو ڈی اے کے ذریعے کرتے رہے ہیں ۔ اب کی بار پھر عوام الناس کو سہولیات فراہم کرنے سے پہلے بس اڈہ کو ہزار گنجی منتقل کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ کیو ڈی اے نے تو ایک حکم نامہ بھی جاری کردیا تھا اور نہ ماننے کی صورت میں بس مالکان کے خلاف کارروائی کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ یہ حکم نامہ من پسند اخبار کے ذریعے ایک اشتہار کی صورت میں دیا گیا تھا کیونکہ خبر کی صورت میں حکم نامے کو پذیرائی نہیں مل سکتی تھی۔ بہر حال حکومت کا یہ فیصلہ غلط ہے کہ بس اڈے کو فوراً ہزار گنجی منتقل کیا جائے ۔ اس کے فوائد کیا ہیں کوئی افسر یہ نہیں بتا سکتا ۔ البتہ ٹرانسپورٹر حضرات نے اس کے نقصانات اپنے تقاریر اور اخباری بیانات میں گنوا دئیے ہیں۔ہم صرف عوامی مفاد میں اس کی مخالفت کرتے ہیں دنیا بھر کے بڑے بڑے شہروں میں بس اڈے شہروں کے وسط میں قائم ہیں یہ سہولت لوگوں کو گھر کی دہلیز پر فراہم کی گئی ہے۔ انٹر سٹی بس اڈے شہروں کے وسط میں ہیں تاکہ لوگوں کوآمد و رفت میں آسانی ہو ۔ دور دور تک ان کو جانا نہ پڑے، وہ آسانی کے ساتھ پیدل بس اڈے پہنچ سکیں اور دوسرے شہر روانہ جاسکیں ۔ اس کے لئے حکومت کو چائیے کہ شہر کے وسط میں دس یا بیس مقامات پر بس اڈے بنائے تاکہ لوگ مختلف علاقوں میں یہ سہولت حاصل کرسکیں ۔ مگر ہماری نوکر شاہی ہے کہ وہ مفاد پرستوں کے مفادات کی نگرانی میں مستعد ہے اورہر قیمت پر ان کے ناجائز مفادات کی نگرانی کے لیے تیار ہے چاہے لاکھو ں انسانوں کو پریشانی کا سامنا ہو ۔ دوسری طرف ٹرانسپورٹرز اور تمام شہریوں کا یہ حق ہے کہ کوئی نا پسندیدہ بات یا عمل کے خلاف احتجاج کریں ۔ احتجاج ان کا حق ہے مگر عوام الناس کو ہراساں کرنا، ان کو نقصان پہنچانا، ان کو اذیت پہنچانے کی اجازت نہیں ۔ ٹرانسپورٹرز اپنی بسیں بند کردیں یا گاڑیاں نہ چلائیں تو ان کا احتجاج رجسٹرڈ ہوجاتا ہے ۔ احتجاج کو حکام بالا تک پہنچانے کا کام مکمل ہوجاتا ہے ۔ سڑکیں بند کرنا ‘ لوگوں کی آمد ور فت میں خلل ڈالنا ‘ یہاں تک کہ پیدل چلنے والوں کا راستہ بھی روکا گیا، یہ کوئی پسندیدہ عمل نہیں ہے ۔ سریاب روڈ پر بس اس طرح سے کھڑے کیے گئے ہیں کہ کسی بزرگ ‘ بچے اور خواتین تک کا پیدل گزرنا مشکل ہوگیا ہے ۔ یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی گلیوں کو لاٹھی بردار نوجوانوں کے ذریعے بند کردیا گیا۔ ان کا ہڑتال کیا تھا؟ عام لوگوں کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے کوئی رکشہ ‘ موٹر سائیکل بلکہ سائیکل تک کو راستہ سے گزرنے کی اجازت نہیں ہے اس سے ٹرانسپورٹرز کے احتجاج کو عوام میں قطعاً پذیرائی نہیں ملی اور نہ ملے گی کیونکہ انہوں نے احتجاج کے بہانے لوگوں کو تنگ کیا، ان کو ہراساں کیا، بچے اپنے اسکول نہ جاسکے بعض لوگ اپنی ڈیوٹی پر نہیں پہنچ سکے ۔ علاقے میں روزگار بالکل بند تھا۔ اگر کل کسی نے ایک چھوٹے سے راستے سے گزر کر گیا تھا دوسرے دن اس کو بھی مکمل طورپر بند کردیا گیاتاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سزا ملے ۔ اس سلسلے میں سیاسی قائدین ، علاقے کے عمائدین اور سیاسی پارٹیاں غائب ہیں جو احتجاج کرنے والوں کو عوام کو ہراساں کرنے سے روکیں اور ا ن کو اپنے احتجاج کے حد تک محدود کریں ۔چونکہ احتجاج حکومت کے خلاف ہورہا ہے ، حکومت ان کو باز نہیں رکھ سکتی ۔ البتہ ان کیخلاف کارروائی کرسکتی ہے ۔ اس معاملے کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت شہر کے اندر اور مختلف علاقوں میں چھوٹے چھوٹے بس اڈے قائم کرے ۔ اگر سرکاری زمین نہیں ہے تو پراپرٹی خرید کر بس اڈے قائم کرے حکومت اور انتظامیہ یہ خیال چھوڑ دے کہ کوئٹہ کے لوگ مستونگ کے قریب جا کر انٹر سٹی بس میں سفر کریں گے ۔