بلوچستان بجلی کے بحران کا شکار ہے اور اس کی موجودہ صورت حال میں بہتری کے امکانات نظر نہیںآتے ۔ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت نے صوبہ پنجاب کے بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لئے درجنوں منصوبے بنائے ہیں اور ان سب پر چابکدستی سے عمل بھی ہورہا ہے ۔ اگلے چند سالوں میں امید ہے کہ پنجاب بجلی کے بحران پر مکمل طورپر قابو پا لے گا ۔ اس میں چین کی امداد اورتعاون کا بڑا ہاتھ ہے وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے پاس ‘ وزارت خارجہ ‘ وزارت منصوبہ بندی اور ترقیات کے وفاقی محکمے بھی ہیں ۔ وہ مرضی سے منصوبے بناتا ہے اور ان پر آسانی سے عمل درآمد بھی کرواتا ہے ۔ شاید وہ پاکستان میں بادشاہت کا ولی عہد یا ’’ کراؤن پرنس ‘‘ بھی ہے ۔ بہر حال ہمیں خوشی ہے کہ پاکستان کے کسی ایک صوبے میں بجلی کا بحران خاتمے کی طرف گامزن ہے ۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے اس میں کوئی خاص سرگرمی اور گرم جوشی نظر نہیں آرہی کہ یہاں بھی بجلی کا بحران ہمیشہ ہمیشہ کے حل ہوجائے ۔ بلوچستان میں چار بڑے بجلی گھر ہیں ۔ اوچ پاور کے دو پلانٹ ‘ حبیب اللہ کوسٹل پاور کوئٹہ اور حبکو پاور پراجیکٹ ‘ یہ تینوں پاور پلانٹس مجموعی طورپر دو ہزار دو سو سے زائد بجلی پیدا کررہے ہیں مگر یہ بجلی بلوچستان کے عوام کے لئے نہیں ہے اس کو وفاق نے خرید لیا ہے اور یہ براہ راست جام شورو کے ٹرانسمیشن لائن سے منسلک ہیں۔
بلوچستان کی موجودہ ضروریات کا اندازہ 1600میگا واٹ ہے اور وفاقی گرڈ سے بلوچستان کو صرف 400میگا واٹ بجلی فراہم کی جارہی ہے ۔جس کی وجہ سے بلوچستان کے طول و عرض میں بیس بیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ صرف صوبائی دارالحکومت میں روزانہ 10 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے ۔ پاور بریک ڈاؤن عام سی بات ہے دیکھ بھال اور بحالی کے بہانے روزانہ کئی کئی گھنٹے کوئٹہ سے آئے دن بجلی غائب رہتی ہے ۔ منتخب اراکین قومی اسمبلی ‘ سینٹ اور صوبائی اسمبلی کو اس سے دلچسپی نہیں ہے کہ بلوچستان بیس گھنٹے بجلی کے بغیر رہتا ہے ۔ بعض اراکین جو خود زمیندار ہیں ان کو ٹیوب ویل کا غم کھائے جارہاہے ۔ ان کو حال ہی میں دس ارب روپے عوام کے رقوم سے دی گئیں۔دوسرے الفاظ میں ان کی ذاتی کاروبار کے لئے اتنی بڑی رقم صرف صوبائی حکومت نے دی اور وفاقی حکومت کا حصہ اس سے الگ ہے ۔ اگر ان کو نقصان ہے تو دوسرے کاروبار میں جائیں مفت کی بجلی کیوں چاہتے ہیں ۔بہر حال بلوچستان میں سستی بجلی پیدا کرنے کے لا تعداد وسائل موجود ہیں ۔ ان میں سولر پاور ‘ ہوا کے ذریعے ’’ ونڈ مل‘‘ لگانے کے امکانات موجود ہیں ۔نوکنڈی اور اس کے ملحقہ علاقے جو ایران اور زاہدان کے قرب و جوار اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ہوا30میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ساراسال چلتی ہے ۔ سورج کی تپش بلوچستان کے ہر خطے میں موجود ہے ۔ کوئلہ کے وسیع ذخائر تقریباً ہر خطے میں موجود ہیں جس سے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ۔ ٹیوب ویل کے مالکان سولر پاور کے ذریعے ٹیوب ویل چلا ئیں تو مستقل طورپر اس مسئلے سے نکات حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت گٹر اسکیموں پر سرمایہ کاری بند کرے اور تمام وسائل کو طویل مدت کے معاشی منصوبوں پر خرچ کیا جائے جس میں ہر خطے کو سستی بجلی بذریعہ سولر ‘ ونڈ پاور یا کوئلہ سے ملے۔ سب سے اچھا منصوبہ سولر پاور کا ہے، ایک چھت ایک بلب ‘ دوسرے الفاظ میں Roof Top Solutionاس میں نہ ٹرانسمیشن لائن کی ضرورت نہ اس کے نقصانات جو ہمیشہ اربوں روپوں میں ہوتے ہیں۔ اس لئے حکومت ہر گاؤں کو اور ہر گھر کے لئے Roof Top Solution فراہم کی جائے ۔ بڑے بڑے شہروں اور آبادی کے لئے بجلی گھر بنائے جائیں تاکہ زیر زمین پانی کو کاشت کاری اور پیداوار حاصل کرنے کے استعمال میں لایا جائے ۔
بلوچستان حکومت بجلی گھر بنائے
وقتِ اشاعت : April 29 – 2015