ماڈل گرل ایان علی پانچ لاکھ ڈالر دبئی منتقل کرنے کی کوشش کے دوران اسلام آباد ائیرپورٹ پر گرفتار ہوئیں۔ ظاہر ہے اتنی بڑی رقم ان کی اپنی نہیں تھی، کسی اور طاقت، غالباً کسی انتہائی طاقتور اور بھاری بھرکم پاکستانی شہری کی تھی جس کو یہ خطرہ لاحق ہوا ہوگا کہ اس کی دولت اس بدامن ملک میں محفوظ نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو ماڈل گرل ایان علی کے ذریعے بیرون ملک منتقل کیا جائے۔ چنانچہ اس کوشش میں ایان علی گرفتار ہوئیں۔ پہلے تو تفتیش کاروں نے پاکستان بھر میں یہ ماحول بنالیا تھا کہ ایان علی ان سے تعاون نہیں کررہی یعنی اس شخص کا نام نہیں بتارہی کہ یہ دولت کس بڑی شخصیت کی ہے یا کسی اہم ترین شخص نے یہ دولت ان کے حوالے کی کہ اس کو دبئی منتقل کریں۔ آخر کار وہی کچھ ہوا۔ تفتیش کاروں، محکمہ داخلہ سندھ اور ملک کے حکمران کا فیصلہ صادر کردیا گیاکہ یہ دولت کسی امیر ترین، مقبول ترین اور طاقتور شخص کی نہیں ہے جو ملک کے حکمران طبقے سے تعلق رکھتا ہے بلکہ یہ ایان علی کی اپنی ہی ہے۔ اتنی دولت اتنی مختصر مدت میں ایان علی کہاں سے لائیں؟ اس کا جواب کبھی اور کسی عام آدمی کو نہیں ملے گا یہ حکمران طبقے کا راز ہی رہے گا۔ اس لئے تفتیش کاروں نے ایان علی کو مرکزی ملزم بنالیا اور اس پر کارروائی کا آغاز کردیا۔ یہ بات طے ہے کہ پہلے تو عبوری فیصلے میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ایان علی کو ماتحت عدالت سے سزا ہوگی اور اپیل میں ان کو باعزت طور پر رہا کردیا جائے گا تاکہ دولت کی بیرونی ملک منتقلی کا دھندا بھی چلتا رہے اور عوام الناس کو بے وقوف بھی بنایا جاتا رہے اور آئندہ آنے والے اس شعبے کے نئے ایان علی کو یہ یقین ہو کہ ان کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوگا اور پاکستان سے دولت کی منتقلی جاری رہے گی تاکہ حکمران طبقات کو یہ یقین ہو کہ بیرونی دنیا میں ان کا سرمایہ محفوظ رہے گا۔ اور پاکستان جیسے ملک میں جو عدم استحکام کا شکار ہے حکمرانوں کا سرمایہ محفوظ نہیں رہے گا۔ حکمران طبقات آئے دن اپنے آپ کو محب وطن سپر قوم پرست اور وطن پرست ظاہر کرتے رہتے ہیں اور غریبوں اور متوسط طبقات کے لوگوں کو ملک دشمن، عوام دشمن، دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد سے تعبیر کرتے ہیں خصوصاً ان لوگوں کو جو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ اپنا واضح سیاسی ایجنڈا اور سیاسی پروگرام رکھتے اور جو حکمران طبقات کے مفادات سے متصادم ہیں، جو حکمران طبقات کے نظریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور غدار ہیں، غیر محب وطن ہیں بلکہ قابل گردن زدنی ہیں۔ ان حکمران طبقات پر کسی قسم کے قدغن نہیں لگائے جاسکتے ،یہ حاکم ہیں ان کو ہر چیز کی اجازت ہے بلکہ ملک اور قوم کو تباہ کرنے کی بھی اجازت ہے۔ یہی کام جنرل یحییٰ نے 1970میں کیا۔ کسی نے اس کا ہاتھ نہیں روکا بلکہ ان کے کارناموں کو سراہا گیا ان کے اقدامات کو اس لئے سراہا گیا کہ بنگالی اور ان کے رہنما غیر فطری مطالبات کررہے تھے کہ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں وہ اپنی آبادی کے مطابق حصہ طلب کررہے تھے۔ وہ بھی بجٹ، وسائل کی تقسیم، انتظامیہ، فوج، بلکہ مسلح افواج اور پارلیمان میں بھی اپنی اکثریت چاہتے تھے۔ ان کا لیڈر کوئی فیوڈل نہیں تھا۔ دو کمرے کے ایک فلیٹ میں رہتا تھا ایک متوسط گھرانے کا سیاسی کارکن تھا لہٰذا پاکستان جیسے ملک میں اس قسم کے لوگوں کی حکمرانی بھلا کیسے ہوسکتی ہے جہاں بعض حضرات کے ذاتی مکانات 50ہزار مربع گز پر پھیلے ہوئے ہوں۔ بلکہ آج کل تو ایکڑوں پر محیط ہیں۔ آئندہ سالوں میں پاکستان میں کاروبار زندگی اسی طرح چلتا رہے گا تاوقتیکہ کوئی بنیادی تبدیلی نہ آئے۔ یہ تبدیلی کون لاسکتا ہے؟۔ بہر حال موجودہ سیاسی لیڈر شپ مکمل طور پر کرپٹ ہے۔ ان کی موجودگی میں ملک کو نقصان تو پہنچ سکتا ہے مگر مثبت تبدیلی نہیں آسکتی جو عوام اور غریب لوگوں کے مفاد میں ہو۔
دولت کی بیرون ملک منتقلی
وقتِ اشاعت : April 29 – 2015