|

وقتِ اشاعت :   April 29 – 2015

الطاف حسین نے ایک بار پھر اپنا پرانا مطالبہ دہرایا ہے کہ سندھ کی انتظامی تقسیم کی جائے اور شہری علاقوں پر مشتمل نیا صوبہ بنایا جائے ۔ یہ مطالبہ صرف اور صرف متحدہ کا ہے باقی خلق خدا اس کی مخالف نہیں بلکہ سخت مخالف ہیں ۔ الطاف حسین کا یہ استدلال غلط ہے کیوں کہ شہری علاقوں میں رہنے والے سندھی ‘ بلوچ ‘ پختون ‘ پنجابی ‘ سرائیکی اور دوسری سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اردو بولنے والے بھی اس مطالبے کے خلاف ہیں اس لئے ان کا مطالبہ جائز نہیں اور یہ پورے سندھ کے عوام کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی نہیں کرتا لہذا ان کو چائیے کہ عوام الناس کی بہتری کے مفاد میں اپنا یہ مطالبہ واپس لیں اور سندھ کی ترقی اور اتحاد کے لئے کام کریں جہاں ہر سندھی خواہ کوئی بھی زبان بولتا ہو خوشحال رہے ‘ محفوظ رہے ۔ تاریخی طورپر سندھ ایک صوبہ نہیں بلکہ وفاق پاکستان کی ایک اہم ترین اکائی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں سندھ نے وفاقی اکائی کے طورپر اپنے حقوق کی قربانی دی اور بعض اختیارات وفاق پاکستان کو تفویض کیے جس کی وجہ سے پاکستان ایک جدید ریاست کے طورپر قائم ہوا ۔ دوسرے الفاظ میں پاکستان دراصل وفاقی اکائیوں کا رضا کارانہ اتحاد ہے ۔ یہ کوئی انتظامی علاقہ نہیں تھا جو ہندوستان سے الگ ہو کر پاکستان بن گیا ۔ جیسا کہ مسلم بنگال میں ہوا مسلم بنگال نے وفاق پاکستان سے علیحدگی صرف شکایات اور بنیادی مسائل پر اختلافات کی وجہ سے اختیار کی ۔ پاکستان اب چار وفاقی اکائیوں پر مشتمل ایک وفاقی حکومت ہے جس کی اپنی کوئی زمین نہیں ہے جو الطاف حسین کی خدمت میں پیش کیاجائے ۔ پوری زمین وفاقی اکائیوں نے عطا کی ہیں کہ وفاق صرف عوام کو سہولیات فراہم کرے ’ نہ کہ اس کو بازار میں فروخت کرے اور وسائل جمع کرے ۔ اس لئے کہ وفاق کی کوئی زمین نہیں ہے کہ وہاں پر الطاف حسین اپنا مہاجر صوبہ بنائیں۔ تاریخی، آئینی طورپر سندھ کو تقسیم کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے خصوصاً وفاقی حکومت اور ان کے اداروں کے پاس سندھ کے اندر دوسرا صوبہ بنانے کا اختیار نہیں ہے ۔ اس لئے وفاقی حکومت کو اس پر ایک واضح اور سخت موقف اختیار کرنا چائیے جہاں تک سرائیکی صوبہ ‘ پوٹھوہار صوبہ یا گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دینے کی بات ہے وہ سندھ کی تقسیم سے مختلف ہے ۔ سرائیکی ‘ پوٹھوہاری اور گلگت کے لوگ اپنی سرزمین پر صدیوں سے آباد ہیں اگر وہ اپنے علاقے میں اپنا صوبہ بنانا چاہتے تو ان کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ یہ مطالبہ کریں جو قانونی ،اخلاقی اورتاریخی طورپر جائز ہے ۔ مگر سندھ میں صورت حال یہ نہیں ہے مہاجرین اوردوسرے لوگ اپنے اپنے آبائی اور تاریخی علاقوں کو چھوڑ کر یہاں ہجرت کرکے آئے ہیں وہ یہاں پر معاشی مہاجر ہیں ۔ سیاسی مہاجر ہیں سندھ کے باسی نہیں ہیں ان کو اپنے نام کے صوبے میں رہنے کا شوق ہے اور پاکستان سے نفرت ہے تو وہ اپنے آبائی ‘ تاریخی صوبوں میں واپس جائیں وہاں اپنی مرضی سے حکومت چلائیں اور پالیسی بنائیں۔ اگر انہوں نے سندھ کو اپنا وطن تسلیم کر لیاہے تو وہ بھی سندھ کے مالکان میں شمار ہوں گے۔ وگر نا وہ سندھی نہیں ہیں اور سندھ پر ان کا کوئی قانونی اور اخلاقی حق نہیں بنتا۔ سندھ میں رہنے والے بلوچ صدیوں سے سندھ میں آباد ہیں مگر انہوں نے کبھی بھی سندھ سے علیحدگی کی بات نہیں کی بلکہ ہمیشہ سندھ کے مفادات کے تحفظ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیاری ایک زندہ جمہوری مثال ہے کہ لیاری کے باشندوں نے ہمیشہ سندھ کے مفادات کا تحفظ کیا اور اپنی جانیں نچھاور کیں ’ صرف لیاری اور ملیر کراچی شہر کے دو بڑے سندھیوں کے مرکز ہیں جو کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی کوششوں کو ناکام بناتے ہیں اور ان باشعور سیاسی کارکنوں کی موجودگی میں دنیا کی کوئی قوت کراچی کو سندھ سے الگ نہیں کر سکتی۔ ان با شعور سیاسی کارکنوں کا سندھ کی وڈیرہ شاہی ‘ جاگیردارانہ کلچر سے کوئی تعلق ہے نہ ہی ان کا تعلق سندھ کی کرپشن مافیا سے ہے ۔ یہ سندھ کے باسی ہیں اور سندھ کے مفادات کا تحفظ ہر حال میں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔