توقعات کے عین مطابق پولیس اور سیکورٹی کے اعلیٰ ترین افسران نے متحدہ کی سب سے کمزور نبض پر ہاتھ رکھ لیا اور اس کے ساتھ زبردست پروپیگنڈا مہم بھی شروع کیا گیا کہ متحدہ کے بعض لوگ اور رہنماؤں کی دشمن بھارت سے نہ صرف تعلقات ہیں بلکہ وہ لوگ متحدہ کے کارکنوں کو بھارت روانہ کرتے رہے اور ان کو وہاں پر بھارتی فوجی افسران دہشت گردی کی تربیت دیتے رہے۔ یہ تمام باتیں آجکل کی نہیں ہیں یہ 1990ء کی دھائی کی باتیں ہیں جب متحدہ کے بعض لوگوں پر یہ الزامات لگتے رہے کہ وہ براستہ دبئی، جنوبی افریقہ، تھائی لینڈ اپنے خاص لوگوں کو بھارت گوریلا ٹریننگ کے لیے بھیجتے رہے ہیں اور وہ بھارت سے تربیت حاصل کرتے رہے ہیں یہ دونوں ملزمان جن کو ملیر پولیس نے گرفتار کیا ہے اسی زمانے کے لوگ ہیں۔ شاید حکومت اور سیکورٹی اداروں کے پاس صرف وہی پرانے ثبوت ہیں جن کو اب وہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ الطاف حسین اور متحدہ کے دوسرے رہنماؤں نے موجودہ زمانے میں بھارت سے اس قسم کے تعلقات نہیں رکھے یا ان کے پاس موجودہ حالات میں اس قسم کے معلومات نہیں ہیں یا متحدہ نے بھارت سے فوجی نوعیت کے تعلقات توڑ لئے ہیں۔بہر حال ہمارے سامنے میڈیا نے ابھی تک اس قسم کے شواہد سامنے نہیں لائے ہیں اور نہ ہی اس کے شواہد ہیں کہ بھارت متحدہ کا کارڈ پاکستان میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سب باتیں صرف اور صرف سیکورٹی اداروں اور سیکورٹی کے افسران تک ہی محدود ہیں اور وہ نئی معلومات کب عوام کو دیں گے یہ فیصلہ انہی نے کرنا ہے۔ میڈیا میں ابھی کچھ نہیں ہے شاید اسی لئے سیکورٹی اداروں نے 1990ء کے دہائی کے واقعات پر فی الحال انحصار کیا ہوا ہے یہ حیرانگی کی بات ہے کہ ایک پولیس افسر کو سیاسی بیان دینے کے لئے چنا گیا ہے۔ ظاہر ہے سیکورٹی اداروں کے حکم کے بغیر معروف افسر اس قسم کا کام نہیں کرسکتا نہ یہ بیان دے سکتا ہے کہ فلاں پارٹی ملک دشمن ہے اور اس پر پابندی لگائی جائے۔ پی پی پی اوراس کی صوبائی حکومت نے اس پر اپنی نہ صرف ناراضگی کا اظہار کیا ہے بلکہ کراچی پولیس کے طاقتور ترین پولیس افسر کا تبادلہ کردیا گیا ہے اور اس کو پولیس ہیڈ آفس میں تعینات کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہی شرجیل میمن جو صوبائی حکومت کے سیاسی ترجمان بھی ہیں نے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور بتایا کہ پولیس افسر کو سیاسی بیان دینے پر ان کو اپنے من پسند عہدے سے آخر کار ہٹادیا گیا ہے۔ متحدہ نے اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس افسر کو ٹرانسفر کرنے سے کام نہیں چلے گا۔اس کی باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہئے۔ بہر حال متحدہ کے خلاف کارروائی نے ایک زبردست کروٹ لی ہے۔ اور وہ بھی سیکورٹی افسران کی مرضی کے بعد ہی متحدہ پر بھارت کا ایجنٹ ہونے کا الزام آخر کار لگالیا گیا۔ ادھر متحدہ کے رہنما ء نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیاہے اور عسکری قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جس پر سرکاری میڈیا انتہائی اشتعال میں ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ الطاف حسین عوام کو فوج کے خلاف اکسارہے ہیں۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی ضرور ہوگی۔ حکومت کی جانب سے یا سیکورٹی اداروں کی جانب سے متحدہ کے خلاف کارروائی متوقع ہے۔ وہ کیا ہوسکتا ہے اس کا اشارہ پولیس افسر نے دے دیا ہے کہ متحدہ کے سیاسی طاقت کو توڑنے کا واحد طریقہ متحدہ پر قانونی پابندی ہے۔ پارٹی پر پابندی اور اہم رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد ہی متحدہ کو ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے یہ کام ناممکن نظر آتا ہے۔
متحدہ کے خلاف مزید کارروائی
وقتِ اشاعت : May 1 – 2015