|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2015

بلوچستان کو آج تک وہی مقام حاصل ہے جو ابتدائی سالوں پاکستانی ریاست کا تھا۔دنیا کا کوئی ملک اور بین الاقوامی ادارہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا بلکہ معاملہ اس کے الٹ تھا کہ بین الاقوامی کمپنیاں اور ادارے اپنے اپنے مفادات اور حصص فروخت کرکے پاکستان سے واپس جارہے تھے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ ملک میں عدم استحکام، عدم تحفظ، غیر یقینی صورت حال اور سرمائے کا محفوظ نہ ہونا تھا۔ اس لئے پاکستان کے ماہرین معاشیات نے اچھے اور بہتر منصوبے بنائے اور ان سب کو سرکاری شعبہ کے ماتحت رکھا۔ سرکاری شعبہ کے کارخانوں اور اداروں میں لاکھوں افراد کو روزگاردیاگیا۔ حکومت نے خود ادارے اور کارخانے بنائے اور جب منافع کمانے لگے اور کئی سالوں تک منافع کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا تب جاکر ان اداروں کی نج کاری کی گئی یوں نجی شعبوں کو یہ کارخانے اور ادارے فروخت کردیئے گئے۔ وہ ادارے آج بھی قائم ہیں اور منافع بخش ہیں۔ اس لئے حکومت بلوچستان کو حکومت کا معاشی پلان (1950)اپنانا چاہئے اور ہر شعبہ میں صنعتوں اور اداروں کے قیام کو صرف اور صرف سرکاری شعبہ میں اس وقت تک رکھا جائے جب تک وہ منافع دیتے رہیں ،استحکام کی صورت میں ان کو فروخت کیا جائے۔ چنانچہ سالانہ ترقیاتی پروگرام آج کل کے دور میں سرمایہ کا ضیاع ہے۔ اس سے نہ کوئی روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی حکومت کی آمدنی میں گزشتہ 60سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ ان کو گٹر اسکیم کے نام سے گردانا جاتا ہے کہ ساری کی ساری سرمایہ کاری گٹر میں ڈال دی جاتی ہے۔ ایک نیم خواندہ شخص اور ماہر معاشیات یا ماہر منصوبہ بندی میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ نیم خواندہ شخص صرف اور صرف ذاتی یا زیادہ سے زیادہ گروہی مفادات سے آگے نہیں دیکھتا اس لئے عوام کی دولت کو ضائع کرنا یقینی امر ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب ماہرین معاشیات اور ماہرین منصوبہ بندی طویل مدتی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو یقیناً اس کا بنیادی فائدہ صوبائی معیشت کو ہوگا۔ صوبے میں ترقی کی رفتار بڑھے گی۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملے گا اور مزید ترقی کے لیے صوبائی حکمت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ آنے والے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ رقم طویل المعیاد منصوبوں کے لئے رکھیں تاکہ صوبے میں پیداوار میں اضافہ ہو، صوبہ صنعت کے میدان میں ترقی کرے اور لوگوں کو روزگار مہیا ہو۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد کو نسلیں بن گئیں ہیں لہذا سول ورکس کا کام ان کے حوالے کیا جائے کہ وہ پرائمری تعلیم، صحت، صفائی کا خیال رکھیں۔ دیہی علاقوں کو سڑکوں کے جال سے جوڑدیں۔ معاشی ترقی کا کام صوبائی حکومت کرے۔ وہ صرف اسی وقت ہوسکتا ہے کہ انفرادی اراکین صوبائی اسمبلی کو یہ حق نہ دیا جائے کہ وہ ذاتی اسکیمیں بنائے اور ذات کے لئے فنڈز مختص کرائے۔ اسمبلی کا 75فیصد وقت PSDP پر بحث کرنے میں گزرجاتا ہے۔ اور قانون سازی پر پورے پانچ سالوں کے دوران صرف چند گھنٹے صرف کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ حکومت بلوچستان ایک بہت بڑی رقم صوبے بھر میں کارخانے لگانے پر خرچ کرے ان میں سیمنٹ فیکٹری، گارمنٹ فیکٹری، دونوں ٹیکسٹائل ملوں کو بحال کرے کیونکہ یہ وفاق نے سازش کرکے بند کرائے تھے۔ وفاق اتنی ہی دو بڑی ٹیکسٹائل مل بلوچستان میں قائم کرے، فش پروسسنگ پلانٹ، کاٹن مل قائم کرے۔ صوبائی حکومت ان کارخانوں کو چلانے کے لئے بجلی گھر تعمیر کرے۔ سب سے اہم ترین مسئلہ سولر پاور کو استعمال کرکے ہر گھر اور ہر دیہات کو مکمل اور خودمختار سولر یونٹ بناکر دیا جائے تاکہ گرڈ پاور کی ضرورت نہ ہو۔ صنعتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی حکومت درجنوں ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرز ہر خطے اور علاقے میں قائم کرے تاکہ میٹرک کے بعد ہر شخص کو کوئی ایک ہنر سیکھنے کا موقع ملے۔